طارق سعید
محفلین
ہمارا عشق بھلا لازوال تھوڑی ہے
تمہارے پیار کا ملنا، کمال تھوڑی ہے
وہ پوچھتا ہے کہ کیوں نہ جدا رہیں اب ہم
میں جانتا ہوں اسے، یہ سوال تھوڑی ہے
جو وہ بھی رویا تو مجھ کو یقین آنے لگا
ہجر کا میں نے ہی پالا وبال تھوڑی ہے
یہ تیرےعشق میں ضبط طلب کی منزل ہے
یہ مت سمجھ کہ وفا اب کے سال تھوڑی ہے
اب اس کو پانے کی ضد چھوڑ بھی تو دو طارق
کسی کو چھو کے ہی پانا، وصال تھوڑی ہے؟
تمہارے پیار کا ملنا، کمال تھوڑی ہے
وہ پوچھتا ہے کہ کیوں نہ جدا رہیں اب ہم
میں جانتا ہوں اسے، یہ سوال تھوڑی ہے
جو وہ بھی رویا تو مجھ کو یقین آنے لگا
ہجر کا میں نے ہی پالا وبال تھوڑی ہے
یہ تیرےعشق میں ضبط طلب کی منزل ہے
یہ مت سمجھ کہ وفا اب کے سال تھوڑی ہے
اب اس کو پانے کی ضد چھوڑ بھی تو دو طارق
کسی کو چھو کے ہی پانا، وصال تھوڑی ہے؟