سنبھل جائیے ۔ ۔ اب ایسی بھی کوئی اتنی خونم خان والی بات نہیں مگر بھئی ہمارا تو ہوا ۔۔وہ آپ سے شیئر کر رہے ہیں۔ جی ہاں۔تو سنیے۔۔
۔عید کی چاند رات کو کچھ باقی ماندہ چھوٹی چھوٹی چیزیں رہ گئیں تھیں انہیں لینے بازار چلے گئے۔۔۔وہا ں سے واپس ہوے۔۔ایک بج چکا تھا۔۔۔میں بیگم کو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اس بار میں اپنا ریکارڈ توڑونگا ۔۔۔اور عید والے دن لازمی فجر پڑھونگا۔۔۔۔رات کو سب استری وغیرہ کر کے سونا۔۔۔خیر بیگم کو اور بھی کام کرنا تھا وہ کرتے کرتے انہیں تین ساڑھے تین بج گئے تھے۔(یہ بات انہوں نے بعد میں بتائی)۔۔ہم حکم صادر کر کے خواب غفلت آغوش میں جلوہ افروز ہوچکے تھے۔۔۔شاید ارادہءمصمم تھا جو اذان کی آواز پر آنکھ کھل گئی۔ ۔ شیطان کو پٹخنی دے کر اٹھے نہائے دل باغ باغ ہو گیا نماز کے لیے الگ اور عید کا جوڑا الگ استری کیا ہوا ٹنگا ہوا تھا۔۔۔کپڑے بدلے نماز پڑھی گھر آگئے۔۔۔پہلی شفٹ نماز عید فطر کی آٹھ بجے تھی اور ابھی صرف ساڑھے چھ ہوے تھے۔۔۔ڈیڑھ گھنٹا پڑا تھا اگر سو جاتے تو پھر۔۔۔سو ہی جاتے اچانک ایک خیال آیا خود کو مصروف کرنے کا۔ ۔ ۔ سوچا صحن دھو دیتا ہوں بیگم کی اٹھ کر محنت اور ٹائم بچ جائے گا آخر وہ بھی اتنی دیر سے سوئی ہیں۔۔۔پھر سارا دن کام میں لگنا ہوگا چلو ایک طرف سے تو میں ہیلپ کردوں مختصر یہ کے پورا صحن دھویا اور پوچا لگانا شروع کیا سوا سات ہو چکے تھے رفتار تیز ہو چکی تھی۔۔بیگم ( پتہ نہیں شور سے یا احساس ذمہ داری سے یا شاید کسی خدشے سے )اٹھ چکی تھیں۔۔ہم پوچا لگانے میں جتےہوے تھے۔۔۔اچانک بیگم کی سراسیمہ سی آواز آئ یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔اور یہ پوچا۔۔بڑی خوشی ہوئ یہ لہجہ سن کے ہم بدستور کام میں لگے رہے اور کہا کے بھئی تم بھی تو اتنی دیر سے سوئ ہو گی سوچا کچھ ہاتھ بٹا دیں۔۔۔پھر بیگم نے اپنا جملہ مکمل کیا ۔۔۔اور ہمارا دل خون خون ہو گیا۔۔۔کہنے لگیں ۔۔۔یہ پوچا میں نے صحن کے لیے نہیں لیا تھا یہ کچن کے لیے تھا۔۔۔آپ نے وہ پرانا والا کیوں نہیں لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم
۔۔