خرم شہزاد خرم
لائبریرین
یعقوب جب امریکن ایمبیسی پہنچا تو دروازے میں ایک سکورٹی والے نے یعقوب کو روک لیا ۔ یعقوب کے وجہ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس نے قمیض شلوار پہنی ہے اس لیے اس کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا ۔ یہاں صرف پینٹ شرٹ والے کو جانے دیا جاتا ہے۔ یعقوب عام طور پر پینٹ شرٹ ہی پہنتا تھا ۔ لیکن آج اس نے قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔ یعقوب نے اپنے استاد کو فون کیا اور ساری بات بتائی۔ یعقوب کے استاد قاضی تنویرصاحب نے اس کو واپس آنے کا کہا ۔ اس دن قاضی تنویر صاحب نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اور قاضی صاحب اکثر پینٹ شرٹ ہی پہنتے تھے وہ اس بات پر خاموش ہو گے۔ دوسرے دن قاضی صاحب پینٹ شرٹ پہن کر امریکن ایمبیسی چلے گے یعقوب کی طرح قاضی صاحب کو بھی دروازے پر روک لیا گیا ۔ اور وہی وجہ بتائی گی۔ قاضی صاحب نے گارڈ سے پوچھا
کیا آپ پاکستانی ہو تو گارڈ نے جی کہہ کر سر کو آگے کی طرف ہلایا۔ قاضی صاحب نے کہاں آپ کو شرم نہیں آئی آپ پاکستانی ہو کر مجھے اس وجہ سے روک رہے ہو کہ میں نے اپنا قومی لباس پہنا ہے۔ گارڈ کہنے لگا میں نوکری کر رہا ہوں مجھے جو حکم ملے گا میں ویسا ہی کروں گا ۔ قاضی صاحب نے کہا یہ ادارہ امریکن ہے لیکن جہاں یہ ادارہ ہے وہ جگہ پاکستانی ہے ۔ اور پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی بھی ہمیں ہمارے قومی لباس سے منع نہیں کر سکتا میں اندر جانا چاہتا ہوں اگر نہیں تو اندر بتا دو باہر قاضی تنویر فوٹو کاپیئر انجینیر آیا ہے ۔ پیغام اندر جاتے ہی اندر سے ایک انگریز آیا جو قاضی صاحب کو جانتا تھا ۔ کیونکہ قاضی صاحب پاکستان کے جانے پہچھانے انجینئر تھے انھوں نے فوٹو کاپیئر کی ٹرینگ جاپان سے لی تھی ۔ قاضی صاحب کو قمیض شلوار میں دیکھ کر حیران ہوا اور کہنے لگا آپ کو پتہ نہیں یہاں شلوار قمیض میں اندر آنے پر پابندی ہے ۔ قاضی صاحب نے کہا میں پاکستانی ہوں اور میںنے اس وقت اپنا قومی لباس پہنا ہوا ہے ۔ آپ ہمارے ملک میں آ کر ہمیں ہمارے قومی لباس پہننے سے روکتے ہو۔ اگر میں اپنا قومی لباس پہن کر آپ کے ادارے میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ تو میں آپ کا کسی قسم کا کوئی کام نہیں کر سکتا ۔ آج کے بعد آپ فوٹو کاپیر کا ماہدہ کسی اور سے کر دیں۔
کیا آپ پاکستانی ہو تو گارڈ نے جی کہہ کر سر کو آگے کی طرف ہلایا۔ قاضی صاحب نے کہاں آپ کو شرم نہیں آئی آپ پاکستانی ہو کر مجھے اس وجہ سے روک رہے ہو کہ میں نے اپنا قومی لباس پہنا ہے۔ گارڈ کہنے لگا میں نوکری کر رہا ہوں مجھے جو حکم ملے گا میں ویسا ہی کروں گا ۔ قاضی صاحب نے کہا یہ ادارہ امریکن ہے لیکن جہاں یہ ادارہ ہے وہ جگہ پاکستانی ہے ۔ اور پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی بھی ہمیں ہمارے قومی لباس سے منع نہیں کر سکتا میں اندر جانا چاہتا ہوں اگر نہیں تو اندر بتا دو باہر قاضی تنویر فوٹو کاپیئر انجینیر آیا ہے ۔ پیغام اندر جاتے ہی اندر سے ایک انگریز آیا جو قاضی صاحب کو جانتا تھا ۔ کیونکہ قاضی صاحب پاکستان کے جانے پہچھانے انجینئر تھے انھوں نے فوٹو کاپیئر کی ٹرینگ جاپان سے لی تھی ۔ قاضی صاحب کو قمیض شلوار میں دیکھ کر حیران ہوا اور کہنے لگا آپ کو پتہ نہیں یہاں شلوار قمیض میں اندر آنے پر پابندی ہے ۔ قاضی صاحب نے کہا میں پاکستانی ہوں اور میںنے اس وقت اپنا قومی لباس پہنا ہوا ہے ۔ آپ ہمارے ملک میں آ کر ہمیں ہمارے قومی لباس پہننے سے روکتے ہو۔ اگر میں اپنا قومی لباس پہن کر آپ کے ادارے میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ تو میں آپ کا کسی قسم کا کوئی کام نہیں کر سکتا ۔ آج کے بعد آپ فوٹو کاپیر کا ماہدہ کسی اور سے کر دیں۔