راشد احمد
محفلین
بھائی مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے
میرا چچا زاد بھائی مجھ سے روہانسی آواز میں یہ کہہ رہا تھا۔ اور میں اس کا منہ تکنے لگا اورپوچھا کیوں؟
میں دفتر دیر سے پہنچتا ہوں اس لئے۔
تو دفتر ٹھیک وقت پر پہنچا کرو۔ میں نے کہا۔
تو وہ کہنے لگا کہ میں آپ کے سامنے ہی صبح سویرے گھر سے جلدی نکلتا ہوں لیکن بس روزانہ دیر سے آتی ہے اگر قسمت اچھی ہو تو وقت پر آجاتی ہے۔
یہ بھائی لاہور کے ایک مصروف ترین ایریا گلبرگ میں کسی نجی ادارے میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور قابل شخص تھا۔ ایک گاوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے اعلی تعلیم حاصل کی اور ملازمت کے لئے لاہور کا رخ کیا۔ یہاں اسے نوکری تو مل گئی لیکن نوکری زیادہ دیر اس کا ساتھ نہیں دے سکی۔ لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں ایک بس جسے ڈائیو کمپنی چلارہی ہے صرف وہی چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے روٹ پر کسی اور بس یا ویگن کو اپنی سروس چلانے کی اجازت نہیں ہے.
اس کمپنی کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس اس روٹ پر چلانے کے لئے چند بسیں ہیں.جس کی وجہ سے مسافروں کو گھنٹوں اس بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے. مجھے اس روٹ پر سفر کرنے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے. میں دیکھتا تھا کہ بس سٹاپ پر مسافروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور وہ بس کے انتظار میں ہیں. کئی افراد نے تو اس سروس سے تنگ آکر موٹرسائیکل یا سائیکل لے لی ہے. اگر کوئی مسافر دورسے بھاگا ہوا انہیں اشارہ کرے کہ بھائی رک جاو ہم نے بھی اس بس کا سفر کرنا ہے تو یہ انتظار نہیں کرواتے. اکثر یہ کہہ دیتے ہیں نو ویٹ نو لیٹ. جس کی وجہ سے وہ مسافر دوسری بس کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے. یعنی دوسروں کو اپنےبنائے ہوئے اصول سکھانا اور خود اس سے لاپروا رہنا. یہ بس سروس سواریوں سے باقی بسوں کی نسبت زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی ہے اور انہوں نے بسوں میں اے سی نصب کروایا ہوا ہے تاکہ آپ کو ٹھنڈی ہوا مل سکے.
یہ میں لاہور کی ایک بس سروس کا بتا رہا تھا لیکن اگر پورے ملک کی ٹرانسپورٹ کا نظام دیکھا جائے تو ہمیں بہت سی خامیاں نظر آئیں گی جو مسافروں کے لئے سہولت کی بجائے عذاب بن جاتی ہے.
1. یہ ہمیشہ دیر سے پہنچتے ہیں اور دیر سے پہنچنے کے باوجود کسی اور کا انتظار نہیں کرتے.
2.اگر بس میں آدھے راستے کوئی خرابی آجائے تو یہ مسافروں کو کرایہ واپس نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگلی بس کا انتظار کروہم آپ کو اس میں بٹھا دیں گے.
3. ایک ہی بس میں گنجائش سے زیادہ سواریاں جانوروں کی طرح سفرکررہی ہوتی ہیں.
4. بسوں کی حالت اتنہائی ناگفتہ ہے. بسیں دیکھنے میں ایسی لگتی ہیں جیسے کھٹارا ہوں.
5. کنڈیکٹروں کا سواریوں کے ساتھ رویہ انتہائی نازیبا ہے.
6. ہر بس کے ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ شکایات یا تجاویز کی صورت میں اس فون نمبر پر رابطہ کریں. لیکن ان کی شکایات اور تجاویز پر کان نہ دھرنا.
7. کسی ہنگامی صورت یا تہوارجس میں عید شامل ہے کےموقع پر سواریوں سے دوگنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے.
عام طور پر لاہور میں دیکھا گیا ہے کہ اگر بارش یا کوئی ایمرجنسی یا بس سروس نہ چل رہی ہو تو رکشہ مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے وہ سواریوں سے دوگنا کرایہ وصول کرکے یہ جواز بتاتے ہیں کہ آگے بارش کی وجہ سے بہت پانی ہے یا آج اس روٹ پر کوئی بس نہیں آئے گی یا کوئی اور وجہ.
پٹرول کی قیمتیں لگ بھگ 20 روپے نیچے آچکی ہیں لیکن ٹرانسپورٹ کمپنیاں کسی صورت کرایہ کم کرنے کو تیار نہیں ہیں جب پٹرول کی قیمتیں بڑھتی تھیں تو یہ اسی وقت شور مچادیتے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔کرایہ بڑھانے کے احکامات جاری کئے جائیں جب پٹرول کی قیمتیں نیچے آئیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں آگے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہم قیمتیں کم کرنے کو تیار نہیں اگر حکومت نے کرایہ کی قیمتیں کم کیں تو اپنی بسیں بند کردیں گے۔
اب کسی کو یہ بھی کہا نہیں جاسکتا کہ بھائی اگر بس نہیں چل رہی یا دیر سے آتی ہے تو سائیکل یا موٹر سائیکل لےلو. یہ کہتے ہوئے وہ ہمارے سابق صدر جنرل مشرف کی وہ بات یاد آجاتی ہے کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں تو ہانڈی میں دہی ڈال کر کھانا بنالو یا ملکہ فرانس کی وہ بات کہ اگر روٹی نہیں ہے تو دبل روٹی کھالو.
ہماری گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ وزرا، اعلی افسران اور مشیران قیمتی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور عوام کے مسائل سے بے نیاز ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ٹرانسپورٹ کے نظام کی وجہ سے کسی کی نوکری جاسکتی ہے۔ کوئی مریض راستے میں ہی دم توڑ سکتا ہے یا کسی شخص کو کسی مقام پر مقررہ وقت پر پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ چہک چہک کر یہی بتا رہے ہوتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے ہوگئے ہیں. مشرف دور میں بجلی جاتی تھی لیکن اب لوڈشیڈنگ بند ہوگئی ہے یا کوئی اور کارنامہ.
میاں شہباز شریف جب وزیر اعلی بنے تھے تو ہمیں امید تھی کہ اب گڈ گورننس قائم ہوگی جیسا کہ 12 اکتوبر 1999 سے پہلے تھی لیکن اب شہباز شریف صاحب کو بھی یہ مسئلہ نظر نہیں آرہا. شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شریک اقتدار جماعتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں یا یہ ان کے علم میں نہیں یا ان کے کاموں میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے . ماسوائے ان کا دو روپے کی روٹی کے کوئی اور کارنامہ فی الحال سامنے نہیں آرہا.
لیکن یہ بات اپنی جگہ پر قائم ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنا حکومتوں کا کام ہے. یہ کام نہ تو ملٹی نیشنل کمپنیاں حل کرسکتی ہیں اور نہ ہی باہر سے آئی ہوئی آئی ایم ایف کی امداد
میرا چچا زاد بھائی مجھ سے روہانسی آواز میں یہ کہہ رہا تھا۔ اور میں اس کا منہ تکنے لگا اورپوچھا کیوں؟
میں دفتر دیر سے پہنچتا ہوں اس لئے۔
تو دفتر ٹھیک وقت پر پہنچا کرو۔ میں نے کہا۔
تو وہ کہنے لگا کہ میں آپ کے سامنے ہی صبح سویرے گھر سے جلدی نکلتا ہوں لیکن بس روزانہ دیر سے آتی ہے اگر قسمت اچھی ہو تو وقت پر آجاتی ہے۔
یہ بھائی لاہور کے ایک مصروف ترین ایریا گلبرگ میں کسی نجی ادارے میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور قابل شخص تھا۔ ایک گاوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے اعلی تعلیم حاصل کی اور ملازمت کے لئے لاہور کا رخ کیا۔ یہاں اسے نوکری تو مل گئی لیکن نوکری زیادہ دیر اس کا ساتھ نہیں دے سکی۔ لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں ایک بس جسے ڈائیو کمپنی چلارہی ہے صرف وہی چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے روٹ پر کسی اور بس یا ویگن کو اپنی سروس چلانے کی اجازت نہیں ہے.
اس کمپنی کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس اس روٹ پر چلانے کے لئے چند بسیں ہیں.جس کی وجہ سے مسافروں کو گھنٹوں اس بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے. مجھے اس روٹ پر سفر کرنے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے. میں دیکھتا تھا کہ بس سٹاپ پر مسافروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور وہ بس کے انتظار میں ہیں. کئی افراد نے تو اس سروس سے تنگ آکر موٹرسائیکل یا سائیکل لے لی ہے. اگر کوئی مسافر دورسے بھاگا ہوا انہیں اشارہ کرے کہ بھائی رک جاو ہم نے بھی اس بس کا سفر کرنا ہے تو یہ انتظار نہیں کرواتے. اکثر یہ کہہ دیتے ہیں نو ویٹ نو لیٹ. جس کی وجہ سے وہ مسافر دوسری بس کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے. یعنی دوسروں کو اپنےبنائے ہوئے اصول سکھانا اور خود اس سے لاپروا رہنا. یہ بس سروس سواریوں سے باقی بسوں کی نسبت زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی ہے اور انہوں نے بسوں میں اے سی نصب کروایا ہوا ہے تاکہ آپ کو ٹھنڈی ہوا مل سکے.
یہ میں لاہور کی ایک بس سروس کا بتا رہا تھا لیکن اگر پورے ملک کی ٹرانسپورٹ کا نظام دیکھا جائے تو ہمیں بہت سی خامیاں نظر آئیں گی جو مسافروں کے لئے سہولت کی بجائے عذاب بن جاتی ہے.
1. یہ ہمیشہ دیر سے پہنچتے ہیں اور دیر سے پہنچنے کے باوجود کسی اور کا انتظار نہیں کرتے.
2.اگر بس میں آدھے راستے کوئی خرابی آجائے تو یہ مسافروں کو کرایہ واپس نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگلی بس کا انتظار کروہم آپ کو اس میں بٹھا دیں گے.
3. ایک ہی بس میں گنجائش سے زیادہ سواریاں جانوروں کی طرح سفرکررہی ہوتی ہیں.
4. بسوں کی حالت اتنہائی ناگفتہ ہے. بسیں دیکھنے میں ایسی لگتی ہیں جیسے کھٹارا ہوں.
5. کنڈیکٹروں کا سواریوں کے ساتھ رویہ انتہائی نازیبا ہے.
6. ہر بس کے ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ شکایات یا تجاویز کی صورت میں اس فون نمبر پر رابطہ کریں. لیکن ان کی شکایات اور تجاویز پر کان نہ دھرنا.
7. کسی ہنگامی صورت یا تہوارجس میں عید شامل ہے کےموقع پر سواریوں سے دوگنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے.
عام طور پر لاہور میں دیکھا گیا ہے کہ اگر بارش یا کوئی ایمرجنسی یا بس سروس نہ چل رہی ہو تو رکشہ مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے وہ سواریوں سے دوگنا کرایہ وصول کرکے یہ جواز بتاتے ہیں کہ آگے بارش کی وجہ سے بہت پانی ہے یا آج اس روٹ پر کوئی بس نہیں آئے گی یا کوئی اور وجہ.
پٹرول کی قیمتیں لگ بھگ 20 روپے نیچے آچکی ہیں لیکن ٹرانسپورٹ کمپنیاں کسی صورت کرایہ کم کرنے کو تیار نہیں ہیں جب پٹرول کی قیمتیں بڑھتی تھیں تو یہ اسی وقت شور مچادیتے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔کرایہ بڑھانے کے احکامات جاری کئے جائیں جب پٹرول کی قیمتیں نیچے آئیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں آگے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہم قیمتیں کم کرنے کو تیار نہیں اگر حکومت نے کرایہ کی قیمتیں کم کیں تو اپنی بسیں بند کردیں گے۔
اب کسی کو یہ بھی کہا نہیں جاسکتا کہ بھائی اگر بس نہیں چل رہی یا دیر سے آتی ہے تو سائیکل یا موٹر سائیکل لےلو. یہ کہتے ہوئے وہ ہمارے سابق صدر جنرل مشرف کی وہ بات یاد آجاتی ہے کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں تو ہانڈی میں دہی ڈال کر کھانا بنالو یا ملکہ فرانس کی وہ بات کہ اگر روٹی نہیں ہے تو دبل روٹی کھالو.
ہماری گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ وزرا، اعلی افسران اور مشیران قیمتی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور عوام کے مسائل سے بے نیاز ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ٹرانسپورٹ کے نظام کی وجہ سے کسی کی نوکری جاسکتی ہے۔ کوئی مریض راستے میں ہی دم توڑ سکتا ہے یا کسی شخص کو کسی مقام پر مقررہ وقت پر پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ چہک چہک کر یہی بتا رہے ہوتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے ہوگئے ہیں. مشرف دور میں بجلی جاتی تھی لیکن اب لوڈشیڈنگ بند ہوگئی ہے یا کوئی اور کارنامہ.
میاں شہباز شریف جب وزیر اعلی بنے تھے تو ہمیں امید تھی کہ اب گڈ گورننس قائم ہوگی جیسا کہ 12 اکتوبر 1999 سے پہلے تھی لیکن اب شہباز شریف صاحب کو بھی یہ مسئلہ نظر نہیں آرہا. شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شریک اقتدار جماعتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں یا یہ ان کے علم میں نہیں یا ان کے کاموں میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے . ماسوائے ان کا دو روپے کی روٹی کے کوئی اور کارنامہ فی الحال سامنے نہیں آرہا.
لیکن یہ بات اپنی جگہ پر قائم ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنا حکومتوں کا کام ہے. یہ کام نہ تو ملٹی نیشنل کمپنیاں حل کرسکتی ہیں اور نہ ہی باہر سے آئی ہوئی آئی ایم ایف کی امداد