عثمان قادر
محفلین
ہمارے محلے میں ایک عورت رہتی تھیں نام تو معلوم نہیں لیکن سارا محلہ انہیں " نالدی خالہ" (ساتھ والی خالہ) کہتا تھا محلے میں تقریباً بیس گھر ہیں اور وہ سب کی نالدی خالہ تھیں چاہے ان کے اور بلانے والے کے گھر میں 18 گھروں کا فاصلہ ہو . ان کا بہت دلچسپ سا تکیہ کلام تھا " تو چپ ای کر رہو" ...
وہ کسی کی بھی بات سن کے جواب میں کہتیں تھیں "تو چپ ای کر رہو" اور پھر اس کی بات کا جواب دیتیں تھیں اور اکثر اس تکیہ کلام کی وجہ سے ان کی لڑائیاں بھی ہو جاتی تھیں بات کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ اس کی بات سے اختلاف کر رہی ہیں
اسی طرح ایک "کاکی باجی" ہیں.۔۔۔
ہیں تو وہ دو بچوں کی ماں لیکن جس بچے کو ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا اس کے لیے بھی وہ کاکی باجی ہی ہیں ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی ماشااللہ سے بہت نالائق ہیں۔۔۔۔ کاکی باجی کو انہیں پڑھانے کا بہت شوق تھا میٹرک میں مسلسل دو بار بہت بری طرح فیل ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نا ہاری اور تیسری بار بہت اچھی اکیڈمی اور سکول میں داخلہ کرایا مطلب کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر آخر کار ان کے گھر سے مٹھائی کھانے کو ملی۔۔۔
میں نے کہا کاکی باجی بہت بہت مبارک ہو خیر سے کتنے نمبر آئے ہیں ...؟؟
کہنے لگیں اس بار دو سپلیاں آئی ہیں شکر ہے فیل تو نہیں ہوئے ... خیر یہ کسر انہوں نے سپلیمنٹری امتحان میں پوری کر دی اب ماشااللہ سے دونوں کام پر جاتے ہیں
اسی طرح کریانہ سٹور والے دادا ابو ... کاکی باجی کی ساس سب کی نانی تھی ... ایک سید صاحب تھے جن سے پوری گلی والے قرآن پڑھا کرتے تھے وہ بڑے دادا تھے ...
پورا محلہ ایک فیملی کی طرح رہتا تھا اور ابھی تک رہتا ہے ...
بیس گھروں میں سے پانچ گھر اہل تشیح کے ہیں دو گھر اہلحدیث کے اور باقی کے گھر اہلسنت کے ہیں ... اور کسی کو کبھی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں پرابلم نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی فرقہ واریت پر کوئی بحث ہوتے دیکھی نہ بڑوں میں اور نہ چھوٹوں میں ...
مجھے ابھی تک یاد ہے جب ایک بار ملک میں شیعہ سنی فسادات ہوئے تھے تب ہمارے محلے کے اہل تشیح فیملی کو باقی کے گھر والوں نے پناہ دی تھی اور خود آگے ہو کر بچایا تھا ....
کہتے ہیں دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے اور اس حساب سے پاکستان اس ویلیج کا ایک گھر ...
تو کیا ہم سب مختلف فرقے کے لوگ اس گھر میں ایک فیملی کی طرح نہیں رہ سکتے ؟؟؟
کیا ہم مل کر اس عفریت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے ؟؟
فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟؟؟
میرے خیال میں شاید اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم سب اپنے اپنے کام سے کام رکھیں اور جنت دوزخ اور کافر کا سرٹیفیکیٹ اشو کرنے کا اختیار اللہ کے پاس رہنے دیں. دین سے جبر ختم کریں اور اگر کسی سے بحث کریں تو اسے کافر ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس انداز سے کریں کہ اس میں آپ کے فرقہ کے بارے میں تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور پھر اگر اللہ اس کو ہدایت دے گا تو وہ خود ہی "مسلمان " ہو جائے گا ...
قیامت کے دن تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا نہ کہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے "کافروں" کو مسلمان کیا ...
(عثمان)
وہ کسی کی بھی بات سن کے جواب میں کہتیں تھیں "تو چپ ای کر رہو" اور پھر اس کی بات کا جواب دیتیں تھیں اور اکثر اس تکیہ کلام کی وجہ سے ان کی لڑائیاں بھی ہو جاتی تھیں بات کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ اس کی بات سے اختلاف کر رہی ہیں
اسی طرح ایک "کاکی باجی" ہیں.۔۔۔
ہیں تو وہ دو بچوں کی ماں لیکن جس بچے کو ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا اس کے لیے بھی وہ کاکی باجی ہی ہیں ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی ماشااللہ سے بہت نالائق ہیں۔۔۔۔ کاکی باجی کو انہیں پڑھانے کا بہت شوق تھا میٹرک میں مسلسل دو بار بہت بری طرح فیل ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نا ہاری اور تیسری بار بہت اچھی اکیڈمی اور سکول میں داخلہ کرایا مطلب کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر آخر کار ان کے گھر سے مٹھائی کھانے کو ملی۔۔۔
میں نے کہا کاکی باجی بہت بہت مبارک ہو خیر سے کتنے نمبر آئے ہیں ...؟؟
کہنے لگیں اس بار دو سپلیاں آئی ہیں شکر ہے فیل تو نہیں ہوئے ... خیر یہ کسر انہوں نے سپلیمنٹری امتحان میں پوری کر دی اب ماشااللہ سے دونوں کام پر جاتے ہیں
اسی طرح کریانہ سٹور والے دادا ابو ... کاکی باجی کی ساس سب کی نانی تھی ... ایک سید صاحب تھے جن سے پوری گلی والے قرآن پڑھا کرتے تھے وہ بڑے دادا تھے ...
پورا محلہ ایک فیملی کی طرح رہتا تھا اور ابھی تک رہتا ہے ...
بیس گھروں میں سے پانچ گھر اہل تشیح کے ہیں دو گھر اہلحدیث کے اور باقی کے گھر اہلسنت کے ہیں ... اور کسی کو کبھی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں پرابلم نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی فرقہ واریت پر کوئی بحث ہوتے دیکھی نہ بڑوں میں اور نہ چھوٹوں میں ...
مجھے ابھی تک یاد ہے جب ایک بار ملک میں شیعہ سنی فسادات ہوئے تھے تب ہمارے محلے کے اہل تشیح فیملی کو باقی کے گھر والوں نے پناہ دی تھی اور خود آگے ہو کر بچایا تھا ....
کہتے ہیں دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے اور اس حساب سے پاکستان اس ویلیج کا ایک گھر ...
تو کیا ہم سب مختلف فرقے کے لوگ اس گھر میں ایک فیملی کی طرح نہیں رہ سکتے ؟؟؟
کیا ہم مل کر اس عفریت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے ؟؟
فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟؟؟
میرے خیال میں شاید اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم سب اپنے اپنے کام سے کام رکھیں اور جنت دوزخ اور کافر کا سرٹیفیکیٹ اشو کرنے کا اختیار اللہ کے پاس رہنے دیں. دین سے جبر ختم کریں اور اگر کسی سے بحث کریں تو اسے کافر ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس انداز سے کریں کہ اس میں آپ کے فرقہ کے بارے میں تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور پھر اگر اللہ اس کو ہدایت دے گا تو وہ خود ہی "مسلمان " ہو جائے گا ...
قیامت کے دن تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا نہ کہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے "کافروں" کو مسلمان کیا ...
(عثمان)