ہماری جنگ جاری ہے، پاکستانی طالبان

متفق سو فیصد درست کہا ،
حضرت اس سے انکار نہیں ، لیکن پوست کی گندی کھیت کو امریکی سنڈی ہی کیوں ختم کرے ، خود سے کرے کسی بیرونی امداد کے بغیر ۔۔۔ تب شکائیت نہیں ہوگی
ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب فاٹاکی عوام اپنے اندر پنپنے والے ان خارجیوں کفیریوں اور غیرملکی دہشتگردوں کو پناہ دینا چھوڑ دیں انکی حمایت کرنا چھوڑ دیں۔۔
 
ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب فاٹاکی عوام اپنے اندر پنپنے والے ان خارجیوں کفیریوں اور غیرملکی دہشتگردوں کو پناہ دینا چھوڑ دیں انکی حمایت کرنا چھوڑ دیں۔۔
جہاں تک میرے علم میں ہے ادھر کی عوام کی اکثریت ان دہشت گرد خارجیوں سے خود نالاں ہیں ، فاٹا کی عوامی سطح پر نہ تو انکی کبھی حمایت ہوئی تھی نہ ہے نہ ہوگی کیونکہ فاٹا کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ خارجی تکفیری گروہ یہود و ہنود کے مقاصد پورے کررہا ہے ۔۔
لیکن ساتھ ساتھ وہ ان ڈرون حملوں سے بھی خائف ہیں اور اسکے خلاف نفرت پائی جاتی ہے کیونکہ ڈرون میں دہشتگرد کم اور بے گناہ زیادہ مارے جارہے ہیں اگرچہ میڈیائی جھوٹ یہ بارآور کراتا ہے کہ ڈرون حملہ دہشتگردوں کے خلاف ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر افغانستان میں کیوں حملہ نہیں ہوتا ،
نکتہ کی اہم بات یہ ہے کہ مثال کے طور پہ اگر آپ کو علم ہو کہ آپکا دشمن آپ پر حملہ کرے گا تو ، یا تو آپ اس پر جوابی کارروائی کرینگے یا بے بس ہوکر وہ علاقہ چھوڑ جائنگے ۔۔۔یہ کیسے دہشتگرد ہیں جن پر ایک ہی جگہ (مطلب انکے علاقے میں )بار بار حملہ بھی کیا جاتا ہے اور وہ جوابا اسکو مار بھی نہیں گراتے اور وہاں سے جاتے بھی نہیں ۔۔۔۔

یہ سب ایک ہیں ، بس عوام چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے ۔۔
 

x boy

محفلین
ایک اداریہ ------------- جسارت سے لیا گیا
میں نے نہیں کہا یا لکھا، کہا سنا معاف

دیر بالا میں پاک فوج کے اعلیٰ افسر اور جی او سی سوات، ملاکنڈ ڈویژن میجر جنرل ثناء اللہ اپنے دو ساتھی افسروں لیفٹنٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کے ہمراہ بارودی سرنگ دھماکے میں شہید ہوگئے۔ افوج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاک فوج کے اعلیٰ افسران پاک افغان سرحد کے معائنے سے واپس آرہے تھے کہ دیربالا میں شاہی کوٹ کے علاقے میں سڑک پر بچھائی گئی بارودی سرنگ سے ان کی گاڑی ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں تینوں افسران موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ دو فوجی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ اس افسوس ناک، المناک حادثے کے علاوہ اسی روز شمالی وزیرستان میں فوجی قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جبکہ بنوں میں خاصہ دار فورس کی گاڑی پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا جس سے 16 اہلکار زخمی ہوگئے جن میں سے دو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ایک ہی دن میں تین مختلف واقعات میں دہشت گردوں نے پاک فوج کے قافلوں کو نشانہ بنایا ہے۔ حملے کے لیے تین مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ اس سانحے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ٹیلی فون کر کے پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے درست کہا ہے کہ ایسے واقعات عسا کرپاکستان اور قوم کے حوصلے کو پست کرنے کی کوشش ہے لیکن یہ کوششیں ناکام ہوں گی۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں۔ لیکن ان واقعات میں افواج پاکستان اور ان کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ واقعات ان علاقوں میں پیش آئے ہیں جہاں افواج پاکستان انسداد دہشت گردی کے آپریشن کررہی ہیں۔ ملک میں نئی حکومت قائم ہوچکی ہے جو عسکری قیادت اور سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ نئی قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں کل جماعتی کانفرنس نے ایک بار پھر مشترکہ اعلامیہ منظور کر کے قبائلی علاقوں میں طالبان سے مذاکرات کی منظوری دے دی تھی۔ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبولیت کا پیغام بھی آگیا تھا۔ لیکن اس موضوع پر کسی قسم کی سنجیدہ پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔ اس سلسلے میں جنوبی وزیرستان اور سوات وملاکنڈ میں عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے شروع کیے جانے والے آپریشن کے نتائج اور امن وامان کے قیام کا سوال بھی زیر بحث تھا۔ قوم نے اس خبر پر اطمینان کا سانس لیا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے گورنر خیبرپختونخوا کو سوات اور ملاکنڈ سے فوج کی مرحلہ وار واپسی کی تجویز بھیج دی تھی۔ اسی طرح طالبان سے مذاکرات کے لیے جنوبی اور شمالی وزیرستان سے فوجوں کی واپسی بھی مذاکرات کا کلیدی نکتہ تھی۔ لیکن وہ قوتیں جو یہ چاہتی ہیں کہ افواج پاکستان انسداد دہشت گردی کے نام پر وطنِ عزیز کے داخلی دائرے میں ہی مصروف رہیں اور اپنے ہی شہریوں سے متصادم رہیں انہی قوتوں نے فوج کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا ہے۔ دیربالا پر بارودی سرنگ کے ذریعے فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے ہی کا تسلسل ہے۔ امریکا اور اس کے مقامی اہلکار یہ نہیں چاہتے کہ ملک کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ ہو، امن قائم ہو اور افوج پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے اصل فریضے کو انجام دیں کل جماعتی کانفرنس میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کے فیصلے کے بعد ہی اس بات کا خطرہ تھا کہ کوئی نہ کوئی ایسی واردات کی جائے گی جس کے بعد قبائلی علاقے میں طالبان سے مذاکرات کی تجویز کو سبوتاثر کردیا جائے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان جو وزارت داخلہ میں قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے بنیادی کام کررہے ہیں اور اپنے خصوصی بیان میںکہہ چکے ہیں کہ بعض بااثر قوتیں امن مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ یہ کام سوات میں بھی ہوچکا ہے اس لیے یہ خدشہ موجود تھا کہ کوئی نہ کوئی ایسی واردات کی جائے گی جس کے بعد مذاکرات کے ذریعے امن قائم نہ ہوسکے۔ امن کے قیام کے لیے جس فضا کی ضرورت تھی اس کو ختم کرنے کے لیے براہ راست افواج پاکستان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی اخبارات میں سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار اسنوڈن کی جانب سے جو دستاویزات افشا کی گئی ہیں ان کے مطابق صرف پاکستان میں سی آئی اے نے ایک بہت بڑی رقم خرچ کی ہے۔ حکومت پاکستان اور عسکری قیادت کئی بار یہ الزام عائد کرچکی ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی تو صرف ایک آلہ کار ہے جو پکڑا گیا۔ ریمنڈڈیوس نیٹ ورک بھی پاکستان میں متحرک اور فعال ہے۔ یہ سارے عناصر پاکستان میں ایک ہی نام یعنی طالبان کے نام سے دہشت گردی اور تخریب کاری کررہے ہیں۔ ایبٹ آباد حملے کے زمانے میں امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈ مرل مائک مولن اور دیگر عہدیداروں نے پاکستان کی افواج پر جو الزامات عائد کیے تھے انہیں اب ایک بار پھر یاد کرلینا چاہیے اور اس کی روشنی میں سمجھ لنا چاہیے کہ امریکا کی نظر میں اصل ہدف پاکستان کی ہر قسم کی دفاعی مزاحمت ہے جس میں جوہری پروگرام اور پاکستان کی ہر قسم کی دفاعی صلاحیت ہے۔ اس کو منہدم کرنے کے لیے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک سرگرم عمل ہے۔
 
کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے۔۔۔حالانکہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے فوج پر کئے گئے ان حملوں کی ذمہ داری خود ہی قبول کرلی ہوئی ہے اسکے باوجود ایسے کالم لکھے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر ملے کہ یہ حملے طالبان نے نہیں کروائے بلکہ ان قوتوں نے کروائے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔۔۔حالانکہ بات بالکل کلئیر ہے۔۔۔اگر طالبان پاکستانی فوج اور عوام پر حملے کرنے میں ملوث نہیں ہیں تو ہم مذاکرات ان سے کیوں اور کس بات پر کر رہے ہیں؟۔۔۔پھر تو مذاکرات انہی قوتوں کے ساتھ ہونے چاہئیں جو فوج اور عوام پر حملے کر رہی ہیں۔۔۔اگر وہ قوتیں طالبان نہیں بلکہ کوئی اور ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکرات چہ معنی دارد؟؟؟؟؟؟؟
 

سید زبیر

محفلین
میرے سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مدرسوں ، تعلیمی اداروں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں ، پاک فوج میں دہشت گردی کرنے والے قاتلوں ، اسلام کے نام پر اپنے ہم مذہب اور ہم وطنوں کو نشانہ بنانے والوں کو کیوں جیلوں میں رکھا جارہا ہے تاکہ طالبان سے سودا بازی میں آسانی ہو اور اب تو درمیان میں دلال قسم کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں کہ مجھے طالبان کہ قیدیوں کی طرف سے اٹارنی پاور ملی ہوئی ہے سودے بازی کرنے کی یہ وہی لوگ ہیں جو شہیدوں کے لہو کی تجارت کرہے ہیں گزشتہ عرصے میں ۳۳ طالبان کو رہا کردیا گیا، اُن کے جرائم ختم ہو گئے ۔ کاش اُنہیں پہلے ہی پھانسی مل چکی ہوتی ۔ اور حکومت جلد از جلد ہر قسم کی دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو جنہیں پھانسی کی سزا ہو چکی ہے سزائے موت دے ۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
اگر اس طرح رہے گا تو ایک اور ملک شام کے لئے تیار ہوجائیں
اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے،
ہمیں پاکستان کو نہ کشمیر بنانا چاہیے نہ افغانستان
 

سید زبیر

محفلین
ایک اداریہ ------------- جسارت سے لیا گیا
مریکی اخبارات میں سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار اسنوڈن کی جانب سے جو دستاویزات افشا کی گئی ہیں ان کے مطابق صرف پاکستان میں سی آئی اے نے ایک بہت بڑی رقم خرچ کی ہے۔ حکومت پاکستان اور عسکری قیادت کئی بار یہ الزام عائد کرچکی ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی تو صرف ایک آلہ کار ہے جو پکڑا گیا۔ ریمنڈڈیوس نیٹ ورک بھی پاکستان میں متحرک اور فعال ہے۔ یہ سارے عناصر پاکستان میں ایک ہی نام یعنی طالبان کے نام سے دہشت گردی اور تخریب کاری کررہے ہیں۔ ایبٹ آباد حملے کے زمانے میں امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈ مرل مائک مولن اور دیگر عہدیداروں نے پاکستان کی افواج پر جو الزامات عائد کیے تھے انہیں اب ایک بار پھر یاد کرلینا چاہیے اور اس کی روشنی میں سمجھ لنا چاہیے کہ امریکا کی نظر میں اصل ہدف پاکستان کی ہر قسم کی دفاعی مزاحمت ہے جس میں جوہری پروگرام اور پاکستان کی ہر قسم کی دفاعی صلاحیت ہے۔ اس کو منہدم کرنے کے لیے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک سرگرم عمل ہے۔
جناب محترم مدیر صاحب سے کوئی پوچھے کہ طالبان اگر امریکی ایجنٹ نہیں ہیں تو وہ مساجد ، امام بارگاہوں ، درباروں ، سکولوں ہی پر کیوں حملہ کرتے ہیں انہیں امریکی مفادات ، نظر نہیں آ تے ۔ اور ڈھٹائی و بے حیائی سے اقرار کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں نیٹو ٹرک ک ے ذریعے اسلحہ، گاڑیاں ، دھماکہ خیز مواد اور ڈالر بھیجنے والے جب تک مو جود ہیں اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، اُن کی سپلائی لائن بحال ہے ، گاڑیوں کی مرمت ، گاڑیوں کا ایندھن انہیں کراچی کے ساحکلوں سدے وزیرستان کے غاروں تک مل جاتا ہے ۔۔۔۔ ہاں اب جبکہ امریکی اپنی شکست سمیت یہاں سے رخصت ہونے کا پروگرام یہ عالمی دہشت گردوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے بے سہارا ہو جائینگے اور میڈیا و سیاست کے فن کاروں کے ذریعے مزاکرات کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ان کا واحد حل بلا تمیز سزائے موت ہے جو امت میں تفرقہ ڈالے وہ کسی رعائت کا مستحق نہیں چند ہزار افراد کو مار کر پوری اٹھارہ کروڑ عوام محفوظ ہو جائے گی ورنہ یہ قتل ، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری کی صنعت پھیلتی ہی جائے گی ۔
 
میرے سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مدرسوں ، تعلیمی اداروں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں ، پاک فوج میں دہشت گردی کرنے والے قاتلوں ، اسلام کے نام پر اپنے ہم مذہب اور ہم وطنوں کو نشانہ بنانے والوں کو کیوں جیلوں میں رکھا جارہا ہے تاکہ طالبان سے سودا بازی میں آسانی ہو اور اب تو درمیان میں دلال قسم کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں کہ مجھے طالبان کہ قیدیوں کی طرف سے اٹارنی پاور ملی ہوئی ہے سودے بازی کرنے کی یہ وہی لوگ ہیں جو شہیدوں کے لہو کی تجارت کرہے ہیں گزشتہ عرصے میں ۳۳ طالبان کو رہا کردیا گیا، اُن کے جرائم ختم ہو گئے ۔ کاش اُنہیں پہلے ہی پھانسی مل چکی ہوتی ۔ اور حکومت جلد از جلد ہر قسم کی دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو جنہیں پھانسی کی سزا ہو چکی ہے سزائے موت دے ۔
یہ بات تو صحیح ہے کہ دہشتگردوں کو رہا کرنے کی بجائے پھانسی دے دینی چاہیئے ۔۔۔۔
لیکن حکومت پاکستان بے انتہاء لاچار و بے بس ہے ،کیونکہ ان دہشتگردوں کو کوئی بیرونی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔۔۔۔
کچھ بھی ہو اب یہ تو ہمارے ملک میں داخل ہوچکے ہیں اور دہشتگردی کررہے ہیں انہی کی ایماء پر جو ان پر ڈرون حملے کرتا ہے ۔۔۔بتائیے سالہا سال سے ڈرون حملے ہورہے ہیں پر دہشتگردی رکنے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔۔۔
ہم مخمصے کا شکار ہیں ، ابھی تک ہم نے دہشتگردی پر کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جس پر تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو ۔۔
سب باتیں کرتے ہیں مگر سب کی اپنی اپنی سیاسی پالیسسیاں ہیں ،
یہ مسئلہ سیاسی بنیاد پر فائدہ اٹھانے کا نہیں بلکہ سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس کے لیے سب سے پہلے امریکہ کو نکال باہر کرنا چاہیئے کہ فساد کی جڑ وہی ہے ، اسکو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں اپنے لوگوں کو پکڑے جو باؤلے کتوں کی طرح جگہ جگہ لوگوں پر فائرینگ کھول دیتے ہیں ۔۔ڈرن حملے بند کیئے جائے البتہ افواج پاکستان اپنے مورچے نہ چھوڑے ۔۔۔۔
ان دہشتگردوں سے مزاکرات ضرور کرے کہ دیکھے تو سہی یہ مزاکرات میں کیا کہنا چاہتے ہیں انکو کس بات کی تکلیف ہے ۔۔مزاکرات کے ساتھ ان خوراجیوں سے علماء براہ راست مناظرہ کریں اور انکو فساد چھوڑ کر امن کی طرف راغب کیا جائے ۔۔۔

شائد اس طرح کچھ حالات سدھرے
 
کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے۔۔۔ حالانکہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے فوج پر کئے گئے ان حملوں کی ذمہ داری خود ہی قبول کرلی ہوئی ہے اسکے
باوجود ایسے کالم لکھے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر ملے کہ یہ حملے طالبان نے نہیں کروائے بلکہ ان قوتوں نے کروائے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔۔۔ حالانکہ بات بالکل کلئیر ہے۔۔۔ اگر طالبان پاکستانی فوج اور عوام پر حملے کرنے میں ملوث نہیں ہیں تو ہم مذاکرات ان سے کیوں اور کس بات پر کر رہے ہیں؟۔۔۔ پھر تو مذاکرات انہی قوتوں کے ساتھ ہونے چاہئیں جو فوج اور عوام پر حملے کر رہی ہیں۔۔۔ اگر وہ قوتیں طالبان نہیں بلکہ کوئی اور ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکرات چہ معنی دارد؟؟؟؟؟؟؟
یہ تو خیر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ طالبان سے مزاکرات کیوں کیا جائے جبکہ وہ افواج پاکستان اور عوام پر حملہ کررہے ہیں ۔۔۔
لیکن ہماری پوزیشن اس وقت بے چارگی و لاچاری کی ہے ، ہم دہشتگردوں سے شکست کھا چکے ہیں ،ہماری پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ ہم اپنی شرائط منوا ہی نہیں سکتے ۔۔
یہ سب دیکھنے کے بعد اعلیٰ قیادت نے تبھی تو ہتھیار ڈالنے کا سوچا ہے ۔۔۔اپنی انا میں رہینگے تو مزید بے گناہ مارے جائینگے ۔۔۔
اس وقت لوگوں کو بچانا ہے پاکستان کو بچانا ہے ، امریکہ کا کہا نہ مانے
 
۔۔۔
لیکن ہماری پوزیشن اس وقت بے چارگی و لاچاری کی ہے ، ہم دہشتگردوں سے شکست کھا چکے ہیں ،ہماری پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ ہم اپنی شرائط منوا ہی نہیں سکتے ۔۔
یہ سب دیکھنے کے بعد اعلیٰ قیادت نے تبھی تو ہتھیار ڈالنے کا سوچا ہے ۔۔۔ اپنی انا میں رہینگے تو مزید بے گناہ مارے جائینگے ۔۔۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے
 

x boy

محفلین
جناب محترم مدیر صاحب سے کوئی پوچھے کہ طالبان اگر امریکی ایجنٹ نہیں ہیں تو وہ مساجد ، امام بارگاہوں ، درباروں ، سکولوں ہی پر کیوں حملہ کرتے ہیں انہیں امریکی مفادات ، نظر نہیں آ تے ۔ اور ڈھٹائی و بے حیائی سے اقرار کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں نیٹو ٹرک ک ے ذریعے اسلحہ، گاڑیاں ، دھماکہ خیز مواد اور ڈالر بھیجنے والے جب تک مو جود ہیں اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، اُن کی سپلائی لائن بحال ہے ، گاڑیوں کی مرمت ، گاڑیوں کا ایندھن انہیں کراچی کے ساحکلوں سدے وزیرستان کے غاروں تک مل جاتا ہے ۔۔۔ ۔ ہاں اب جبکہ امریکی اپنی شکست سمیت یہاں سے رخصت ہونے کا پروگرام یہ عالمی دہشت گردوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے بے سہارا ہو جائینگے اور میڈیا و سیاست کے فن کاروں کے ذریعے مزاکرات کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ان کا واحد حل بلا تمیز سزائے موت ہے جو امت میں تفرقہ ڈالے وہ کسی رعائت کا مستحق نہیں چند ہزار افراد کو مار کر پوری اٹھارہ کروڑ عوام محفوظ ہو جائے گی ورنہ یہ قتل ، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری کی صنعت پھیلتی ہی جائے گی ۔
مجھے تو ڈر لگتا ہے آپ پوچھ لیں دوست
 

حسینی

محفلین
میرا بھی یہی خیال ہے ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ سزا وجزا کا ناکافی نظام ہے۔۔۔
بڑے بڑے دہشت گرد جن کو سر عام پھانسی کی سزا ملنی چاہیے تھی ان کو "ناکافی ثبوت" یا حامد کرزئی جیسے پست انسان کی خوشنودی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے خبر آئی کہ ہمارے پاس دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے قوانین ہی نہیں ہیں۔
آسان سا حل یہی ہے کہ ان تمام دہشت گردوں کے کیسس کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے اور جتنا جلدی ممکن ہو ان کو اس دنیا سے ہی فارغ کر دینا چاہیے۔۔
تاکہ عدل کا نظام بھی نافذ ہو۔۔۔۔ اور ہماری جیلیں ٹوٹنے سے بھی محفوظ رہے۔
 

حسینی

محفلین
x4362_17083159.jpg.pagespeed.ic.8dJ4qlSCL1.jpg
 

x boy

محفلین
یہودی قوم کب تک پوری دنیا کو غلام بناکر رکھے گی۔ اور ہم ان سے پیسے لے کر کب تک اپنے لوگوں کا خون کرینگے۔
منافقین جو بھی ہے وہ سزا کاحقدار ہے قوم کا غدار بھی سزا کا حقدار ہے پاکستان سے بھاک کر دوسرے ملک میں بیٹھ کر سیاست چلانا والے بھی
قوم کے غدار ہیں، اور اس سیاست کے داؤ پیچ میں قتل ہوجائیں تو وہ شہید نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سی آئی اے، موساد،را سب کے سب پاکستان میں سر گرم ہیں ہندوؤں کا شجرہ نصب بھی یہودیوں سے ملتا ہے اور مجوسیوں(زرتش) بھی تقریبا ان کے قریب قریب ہے بدھ مت کو بھی زیادہ فروغ دیا جارہا ہے مسلمانوں ہر طرف سے ان کے احاطے میں ہیں آج کل ہرمیڈیا کی طرف سے اشارہ ہے جب بھی کوئی خاص پروگرام چلاتے ہیں تو اس میں اشارہ یہودی، مجوسیوں ۔ بدھ مت
کی طرف ہوتا ہے کبھی مجوسیوں کے پر دکھاتے ہیں کبھی ہندوؤں کی فیری ٹیل کبھی یہودیوں کی کہانیاں
غرض کہ یوسف علیہ السلام کی کہانی میں ایک ذولیحا کو نمودار کیا جاتا ہے اور پاکباز بنایا جاتا ہے جبکہ
اس میں کوئی سچائی نہیں میں نے الحمدللہ سورۃ یوسف متعدد بار سنا پڑھا لیکن نہ ذولیخہ نام پایا نہ پاکباز عورت۔
طالبان طالبان طالبان آج کل تو ایسا کردیا ہے کوئی بھی اچھے خوش لباس میں سنت والی داڑھی میں نظر آئے تو طالبان کہنا شروع کردیتے ہیں،
کیا اب ہمیں سنت لباس میں اونچی شلوار اور اچھی داڑھی کے ساتھ چلنے پر طالبان ظالمان کا لقب سننا پڑے گا۔
ایک الیکٹرونکس الیکٹریشن سے میں پوچھا کہ کوئی بھی الیکٹرونکس کی خرابی کی جانچ کہاں سے شروع کریں، اس پر بتایا کہ جہاں سے اس میں کرنٹ جاتا ہے وہاں سے شروع کریں، ہمیں بھی دیکھنا پڑے گا کہ یہ طالبان آئے کہاں سے ہیں پھر اس کی مرمت وہاں سے کرنی پڑے گی۔ خرابی کی ابتداء افغان جنگ ہے
http://en.wikipedia.org/wiki/Persian_Jews

http://en.wikipedia.org/wiki/Pakistani_Jews_in_Israel

http://www.tabletmag.com/jewish-news-and-politics/128459/pakistans-jewish-ghosts

یہ اوپر دئے گئے ویپ ایک اندازہ ہے اس سے زیادہ ہیں اور اندر اندر سے ہم سب کو کوکھلا کررہے ہیں
اگر ہم سب دین اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے خلفاء راشدین کا دین پکڑے تو کبھی بھی غلط نہیں جائنگے۔
چاہے کوئی کچھ بھی کہے کچھ بھی لکھے اس رسی کو پکڑ کر رکھنا ہے جسکو قرآن و سنۃ کہتے ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
یہ بات تو صحیح ہے کہ دہشتگردوں کو رہا کرنے کی بجائے پھانسی دے دینی چاہیئے ۔۔۔ ۔
لیکن حکومت پاکستان بے انتہاء لاچار و بے بس ہے ،کیونکہ ان دہشتگردوں کو کوئی بیرونی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔۔۔ ۔
کچھ بھی ہو اب یہ تو ہمارے ملک میں داخل ہوچکے ہیں اور دہشتگردی کررہے ہیں انہی کی ایماء پر جو ان پر ڈرون حملے کرتا ہے ۔۔۔ بتائیے سالہا سال سے ڈرون حملے ہورہے ہیں پر دہشتگردی رکنے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔۔۔
ہم مخمصے کا شکار ہیں ، ابھی تک ہم نے دہشتگردی پر کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جس پر تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو ۔۔
سب باتیں کرتے ہیں مگر سب کی اپنی اپنی سیاسی پالیسسیاں ہیں ،
یہ مسئلہ سیاسی بنیاد پر فائدہ اٹھانے کا نہیں بلکہ سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس کے لیے سب سے پہلے امریکہ کو نکال باہر کرنا چاہیئے کہ فساد کی جڑ وہی ہے ، اسکو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں اپنے لوگوں کو پکڑے جو باؤلے کتوں کی طرح جگہ جگہ لوگوں پر فائرینگ کھول دیتے ہیں ۔۔ڈرن حملے بند کیئے جائے البتہ افواج پاکستان اپنے مورچے نہ چھوڑے ۔۔۔ ۔
ان دہشتگردوں سے مزاکرات ضرور کرے کہ دیکھے تو سہی یہ مزاکرات میں کیا کہنا چاہتے ہیں انکو کس بات کی تکلیف ہے ۔۔مزاکرات کے ساتھ ان خوراجیوں سے علماء براہ راست مناظرہ کریں اور انکو فساد چھوڑ کر امن کی طرف راغب کیا جائے ۔۔۔

شائد اس طرح کچھ حالات سدھرے
 

صرف علی

محفلین
چاچا ہجرت کی عبرت انگیزکہانی :
نصرت جاوید
میں جب دس برس کا تھا تو میرے والد کو ملنے ایک بڑے ہی شفیق بزرگ باقاعدگی سے ہمارے ہاں آیا کرتے۔ نام تو ان کا کچھ اور تھا مگر ہم بہن بھائی انھیں چاچا ہجرت کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک خوش شکل اور خوش لباس بزرگ تھے جو پکے نمازی بھی تھے۔ اکثر اوقات وہ نماز کے لیے ہمارے گھر کے قریب ایک مسجد میں جانے کے بجائے ہم سے ایک مصلیٰ منگواتے اور وہیں وضو کرنے کے بعد نماز ادا کر لیتے۔ اپنے فطری تجسس کی وجہ سے میں نے جلد ہی دریافت کر لیا کہ ان کا مسلک ہمارے محلے کی مسجد والوں سے مختلف ہے۔ ایک دن میں اسکول سے لوٹتے ہوئے اس محلے سے گزرا جہاں ’’سِریوں والا چوک‘‘ ہوا کرتا تھا جو غازی علم دین کی وجہ سے کافی مشہور ہوا۔

اس چوک سے پہلے دائیں ہاتھ کو ایک طویل گلی تھی جس کے آخری سرے پر ایک مسجد تھی جو ’’چینیاں والی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ہمارے مشہور صحافی عبداللہ ملک مرحوم کا تعلق بھی اسی محلے سے تھا۔ ان کی آپ بیتی پڑھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ اس مسجد کو ’’چینیاں والی‘‘ کیوں کہا جاتا تھا۔ بہرحال اس مسجد سے متصل میرے اسکول کے ایک دوست کا گھر تھا۔ اس نے ہمیں اپنے گھر اپنی ماں کے پکے قیمے والے پراٹھے کھلانے کو بلایا تھا۔ میں جب اس گھر سے برآمد ہوا تو چاچا ہجرت اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد باہر آ رہے تھے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو پہلے بزرگوں کی طرح تفتیش کرنے کے بعد جانا کہ میں وہاں کیوں موجود تھا۔ اس کے بعد گھر تک جانے کے لیے میرے ہمراہ چل پڑے۔ میں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہ سوال کر ڈالا جو بہت دنوں سے میرے دماغ پر سوار تھا: ’’آپ کو چاچا ہجرت کیوں کہتے ہیں‘‘۔

چاچا نے پہلے تو یہ کہہ کر جان چھڑانا چاہی کہ میری عمر ابھی ایسی باتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوئی۔ میں جرأت کے ساتھ اپنے سوال پر ڈٹا رہا تو انھوں نے بتایا کہ کسی زمانے میں لاہور کے علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ برطانیہ کے زیر تسلط بھارت مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ انھیں کسی آزاد مسلم ملک چلے جانا چاہیے۔ چاچا ہجرت نے ان کے حکم پر عمل کیا اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور چھوڑ کر ایک طویل اور مشکلات بھرے سفر کے بعد افغانستان چلے گئے۔ یہاں تک ان کی بات میں کافی سمجھ چکا تھا۔ فطری طور پر اب یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ وہ پھر واپس کب اور کیوں لوٹے۔ یہ کہتے ہوئے میں نے یہ بھی فرض کر لیا کہ شاید وہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد لاہور لوٹ آئے ہوں گے۔ ایسا مگر ہرگز نہ ہوا تھا۔ انھوں نے خود کچھ نہ بتایا۔ ’’بس آنا پڑا‘‘ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مگر بعد ازاں میری جستجو نے دریافت کیا کہ ان کے ساتھی افغانستان میں بڑی مشکلوں میں گھرے رہے۔ چند ایک کو ’’خطرناک‘‘ قرار دے کر اس وقت کی افغان حکومت نے برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ چاچا کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ بڑی مشکلوں سے چھپتے چھپاتے وہ بالآخر لاہور لوٹ آنے میں کامیاب ہوئے۔

چاچا ہجرت نے جب لاہور چھوڑا تو ان کا ایک شیر خوار بیٹا اور اس سے ذرا بڑی ایک بیٹی بھی تھی۔ ان کا سسرال ایک معقول آمدنی والے کاروباری افراد پر مشتمل تھا۔ انھوں نے سمجھا کہ چاچا ان کی بیٹی اور اپنی اولاد کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ وہ ان کو اپنے ہاں لے آئے۔ اب ان کے بیٹے کی لاہور کے صرافہ بازار میں ایک کافی بڑی دکان تھی اور پاس کے محلے میں ایک چار منزلہ بہت کشادہ مکان بھی۔ اس نے چاچا ہجرت کو رہنے کے لیے ایک فضول سا کمرہ دے رکھا تھا۔ چاچا ہجرت کے بیوی اور بچے ان سے کوئی بات چیت نہیں کرتے تھے، بس ان کے کمرے میں کھانا بھجوا دیتے اور پہننے کے لیے ان کے بیٹے کے استعمال شدہ کپڑے۔ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا۔ وہ دراصل میرے باپ جیسے پرانے شناسائوں کے ہاں اپنی تنہائی دور کرنے اور وقتاََ فوقتاََ روزمرہ ضرورت کے کچھ پیسے لینے آیا کرتے تھے۔ چاچا ہجرت تنہائی اور مجبوری کی گویا ایک مجسم تصویر تھے۔

بہت عرصے کے بعد مجھے یہ علم ہوا کہ چاچا ہجرت جیسے ہزاروں نہ سہی سیکڑوں لوگ ان دنوں افغانستان چلے گئے تھے اور ان کی بے پناہ اکثریت مرتے دم تک دُکھی رہی۔ اس بات پر شرمندہ بھی کہ انھوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ میرے کالج کے دنوں میں ہمارے اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے تھے جن میں بتایا جاتا کہ افغانستان پاکستان کا دشمن ملک ہے۔ اس نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت پر اعتراض اُٹھایا تھا۔ ہمارے پشتون علاقوں کو ہتھیا کر پختونستان بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ایجنٹ اس وقت کے صوبہ سرحد میں آئے روز دھماکے کرتے رہتے ہیں۔ خان عبدالولی خان کی پارٹی اس کی حامی ہے۔ اسی لیے اسے کالعدم قرار دے کر اس کے رہنمائوں کو حیدر آباد جیل میں ڈال کر ان پر غداری کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

مگر پھر جنرل ضیاء الحق تشریف لائے۔ انھوں نے حیدر آباد ٹربیونل ختم کر کے ولی خان کو رہا کر دیا اور افغانستان کے صدر دائود سے دوستی کی کوششیں شروع کر دیں۔ اپریل 1978 میں مگر وہاں ’’انقلابِ ثور‘‘ ہو گیا۔ ’’انقلابیوں‘‘ نے ایک دوسرے کے گلے کاٹنا شروع کر دیے اور دستمبر 1979 میں وہاں کمیونسٹ روس کی فوجیں آ گئیں۔ جنرل صاحب جنھوں نے اپنے لوگوں کو پھانسیاں دے کر اور کوڑے لگا کر بے بس غلام بنا رکھا تھا افغانستان کو آزاد کرانے کے جہاد میں مشغول ہو گئے۔ آج کل جو حضرات دن رات اُٹھتے بیٹھتے جنرل مشرف کو ایک ’’پرائی جنگ‘‘ پاکستان پر مسلط کرنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں کبھی یہ اخلاقی جرأت نہیں دکھاتے کہ کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کر ڈالیں کہ ضیاء الحق بھی ایک ’’پرائی جنگ‘‘ میں اُلجھا تھا۔ اس جنگ کو یہ حضرات ’’پرائی‘‘ کہیں تو کیسے کہیں کہ ’’افغان جہاد‘‘ کے طفیل وہ اب مساجد کے حجروں میں نہیں قلعہ نما گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس Delux جیپیں ہیں جن کے آگے پیچھے جدید اسلحے سے لیس محافظوں کی گاڑیاں چلتی ہیں۔ ہمارا بے باک اور مستعد میڈیا ان سے کوئی سخت سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اپنی اوقات میں رہتا ہے۔

ضیاء الحق کی بھڑکائی جنگ کے ذریعے غازی اور ’’فاتح افغانستان‘‘ بنے مولانا حضرات اور ان کے سرپرست ریٹائرڈ جرنیل اب ہمیں بہت برسوں سے سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہے کہ جب امریکا افغانستان سے نکل جائے۔ گویا امریکا کو افغانستان سے نکالنا ’’پرایا‘‘ نہیں ہمارا اپنا مسئلہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے امریکا ہماری تقریروں، پارلیمان کی قراردادوں اور ٹی وی پر دھانسو سیاپے سے تو افغانستان نہیں چھوڑے گا۔ سنا ہے طالبان نے اس کی فوجوں کو اب اپنے جوشِ ایمانی سے وہ ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ مگر امریکا جیسی طاقت کو ’’ہرانے‘‘ والے طالبان اب ہماری کمزور ریاست کی بات کیوں مانیں گے۔ کابل پر دوبارہ قبضہ جما لینے کے بعد انھیں تو اپنا ’’اسلام‘‘ اور پھیلانا ہو گا۔ بہتر ہے ابھی سے سر جھکا کر ان کی بات ماننا شروع کر دیں۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس نے بھی یہی پیغام دیا ہے۔
۔۔۔
http://www.express.pk/story/176143/
۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
برادرم صرف علی ، نصرت جاوید کے کالم کی شراکت کا بہت شکریہ ، چند سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں ،
ہمیں بتایا گیا کہ
امت مسلمہ کی مثال ایک دیوار کی مانند ہیں جو آپس میں جڑی ہوئی ہیں ۔ ایک اینٹ نکلتی ہے تو سب نکلتی جاتی ہیں ۔
امت مسلمہ کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو مکمل جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔
کیا ہم یہ سوچ کر کہ میں ہی آخر کیوں دوسرے مسلمان کی مدد کروں۔ کیا میں نے ٹھیکہ لے کر رکھا ہے اپنی ذمہ داریوں سے بچ سکتے ہیں ؟
 

سرفروش

محفلین
ڈرون حملے فوج کی مرضی سے ہوتے ہیں ۔۔اور فوج نے یہ اجازت ملک کے مفاد میں ہی دی ہوئی ہے۔۔۔ کیا فاٹا میں پاکستان کا قانون چلتا ہے؟ کیا یہ لوگ پاکستان کی عملداری کو مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر فوج سے کیا گلہ۔
کیا کراچی میں قانون کی عملداری چلتی ہےاور ملکی مفاد میں یہاں ڈرون حملے کب شروع ہوں گے؟؟؟
 

x boy

محفلین
برادرم صرف علی ، نصرت جاوید کے کالم کی شراکت کا بہت شکریہ ، چند سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں ،
ہمیں بتایا گیا کہ
امت مسلمہ کی مثال ایک دیوار کی مانند ہیں جو آپس میں جڑی ہوئی ہیں ۔ ایک اینٹ نکلتی ہے تو سب نکلتی جاتی ہیں ۔
امت مسلمہ کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو مکمل جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔
کیا ہم یہ سوچ کر کہ میں ہی آخر کیوں دوسرے مسلمان کی مدد کروں۔ کیا میں نے ٹھیکہ لے کر رکھا ہے اپنی ذمہ داریوں سے بچ سکتے ہیں ؟

امت مسلمہ کی تعریف بھی کردیجئے بھائی کہ امت مسلمہ یہ سارے مسلک ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دور کامسلمان، خلفائے راشدین کے ساتھ اس دور کا مسلمان
اور تابعین کے دور، میں نے پڑھا ہے کہ الحمدللہ یہ دور قرون کہلاتے ہیں اور بہترین دور تھے۔
 
Top