جاسم محمد
محفلین
ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟
12/02/2020 نبیلہ فیروز
میرے پچھلے کالم میں جس ٹیلی ویژن شو کا ذکر کیا گیا اس میں خلیل الرحمن قمر صاحب نے گلہ کیا کہ میں اتنا نوازا ہوا شخص ہوں، پھر بھی محترمہ طاہرہ عبداللہ اور جناب اویس توحید نے مجھے نہ پڑھا، نہ دیکھا ہوگا۔ انھوں نے طعنہ دیا کہ یہ مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ مغرب کا ادب پڑھتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس میں طعنہ دینے والی کیا بات ہے؟ اگر کوئی شخص مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتا ہے تو کیا اس کے علم میں کمی واقعی ہوتی ہے؟ کچھ لوگ مغرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنے غصے میں کیوں آ جاتے ہیں؟ مغرب سے نفرت کیسی؟
مغرب تو زمین کا ایک خطہ ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو دنیا کے مغربی حصے میں واقع ہیں اور زیادہ تر ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں انسان بستے ہیں جو کئی طرح کی ایجادات اور تخلیقات کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور اس کے کسی بھی کونے میں ہونے والی ایجادات اور تخلیقات سے پوری دنیا کے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 1878 میں بلب ایجاد کرنے والا تھامس ایڈیسن مغرب سے تھا جبکہ اب بلب سے ساری دنیا روشن ہے۔ 1928 میں مغربی باشندے الگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین دریافت کر کے طِب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا جس سے تمام ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس طرح مادی ایجادات سے دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسی طرح ذہنی تخلیقات اور فنونِ لطیفہ بھی انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایجادات اور تخلیقات مشرق میں ہوں یا مغرب میں، انھیں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔
ہم جس طرح مغرب کی مادی ایجادات سے دور نہیں رہ سکتے، اِسی طرح ذہنی تخلیقات سے بھی دور نہیں رہ سکتے۔ اگر صرف زبان کو ہی لیجیے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان میں انسان کی سکھلائی جتنی زیادہ اور تیز ہوتی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ انسان اپنی زبان میں ترقی اور شعور کی منزلیں جِس تیزی سے طے کرتا ہے وہ نئی زبان میں مشکل ہے۔ لیکن کیا آج کے دور میں ہم دوسری زبانوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں سے۔ پنجاب کے کسی دورافتادہ گاﺅں میں بھی چلے جائیں جہاں کی زیادہ تر آبادی ان پڑھ ہو گی تو پانی پیتے ہوئے آپ جگ اور گلاس جیسے انگریزی زبان کے الفاظ سنیں گے جو کہ مغرب کی زبان ہے۔
خلیل الرحمن قمر صاحب کی مغرب سے نفرت سمجھ سے بالا ہے۔ ان کی تمام شناختوں میں سے نمایاں شہرت انہیں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملی۔ ڈرامہ فنونِ لطیفہ کی وہ صنف ہے جس کی تاریخ جاننے سے انہیں گہری دلچسپی ہونی چاہیے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں پانچویں صدی قبل ازمسیح میں کلاسیکی یونانی ڈرامہ ایک منظم شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی قبل ازمسیح میں یورپ میں کلاسیکی رومن ڈرامے میں جو تنوع، نفاست اور وسعت دیکھنے کو ملی، وہ پہلے کسی بھی ثقافت میں نہیں تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں لگ بھگ دسویں صدی بائبل کے واقعات پرمبنی ڈرامے بننے شروع ہوئے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں شیکسپئر اور دیگر تخلیق کاروں نے ڈرامے کو ایک نئی جہت دی۔
اگر اپنے خطے کی بات کی جائے تو پہلا ڈرامہ سنسکرت زبان میں تحریر کیا گیا۔ پہلی سے دسویں صدی کے درمیان ہزاروں ڈرامے لکھے اور پیش کئے گئے۔ ہند میں اسلامی فتوحات کے دور میں دسویں، گیارہویں صدی میں ڈرامے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بعد ازاں پندرھویں سے انیسویں صدی برِصغیر میں مقامی اقدار کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف علاقائی زبانوں میں تھیٹر دوبارہ شروع کیا گیا۔ ہندوستانی ڈرامہ کی موجودہ شکل انیسویں اور بیسویں صدی میں سامنے آئی۔ جدید ڈرامہ نگاری کے حوالے سے رابندرناتھ ٹیگور کا پورے برِصغیر میں بہت نام ہے۔
المختصر، ڈرامہ یونانی اور پھر لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں بنیادی حصہ مغرب کا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا پاکستانی اگر کلاسیکی یونانی یا رومن ڈرامے پڑھتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اگر کوئی ادب سے دلچسپی رکھنے والا انسان مغرب میں تخلیق کردہ ادب سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے تو اس میں طعنہ کیسا؟
ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟ اور کیا یہ حقیقی ہے؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک پاکستانی کے پاس برطانیہ یا چین میں رہائش رکھنے کا اختیار ہو تو اس کی ترجیح برطانیہ ہوتی ہے۔ اگر ایک پاکستانی کے پاس روزگار کے سلسلے میں بحرین یا کینیڈا جانے کا موقع ہو تو وہ کینیڈا کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر صرف ویزہ لگوانے کا ہی موقع مل جائے تو اپنے پاسپورٹ پر ملائشیا یا امریکہ میں سے امریکہ کی مہر ثبت کروائی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے باہر بھیجنا چاہتے ہیں تو مغربی ممالک کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر مغربی لکھاریوں کو پڑھنا غلط کیسا؟ پھر جھگڑا کیا؟ پھر طعنہ کیسا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا مشرقی ممالک پر سیاسی غلبہ (نو آبادیاتی حکمرانی) اور پھر اقتصادی غلبہ، یہ دونوں غلط ہیں۔ اس سے مشرقی ممالک کا استحصال ہوتا ہے۔ کیا اس کا حل خواہ مخواہ کی جعلی مغرب دشمنی ہے؟ مغرب کی ترقی، ان کے علم وفن سے مستفید ہو کر اپنے مسائل کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مغرب کی عقل ودانش اچھی باتوں اور اچھی چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی سوچ، خیال یا نظریے کو فرد کی علاقائی شناخت سے الگ رکھ کر اس پر مکالمہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ یہ مغرب کے باسی کی طرف سے آیا ہے یا مشرق کے۔ مغرب کا ادب پڑھنے میں کوئی برائی نہیں۔ مشرقی اور مغربی، قومی اور بین الاقوامی لکھاریوں کی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ذہن جلا پاتا ہے۔ اسے دنیا میں موجود مختلف نکتہ ہائے نظر کا پتہ چلتا ہے اور اپنے معروضی حالات کو تنقیدی طور پر دیکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ خود احتسابی کے ساتھ خود اصلاحی کا فن آتا ہے جو انسان کے آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے۔
12/02/2020 نبیلہ فیروز
میرے پچھلے کالم میں جس ٹیلی ویژن شو کا ذکر کیا گیا اس میں خلیل الرحمن قمر صاحب نے گلہ کیا کہ میں اتنا نوازا ہوا شخص ہوں، پھر بھی محترمہ طاہرہ عبداللہ اور جناب اویس توحید نے مجھے نہ پڑھا، نہ دیکھا ہوگا۔ انھوں نے طعنہ دیا کہ یہ مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ مغرب کا ادب پڑھتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس میں طعنہ دینے والی کیا بات ہے؟ اگر کوئی شخص مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتا ہے تو کیا اس کے علم میں کمی واقعی ہوتی ہے؟ کچھ لوگ مغرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنے غصے میں کیوں آ جاتے ہیں؟ مغرب سے نفرت کیسی؟
مغرب تو زمین کا ایک خطہ ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو دنیا کے مغربی حصے میں واقع ہیں اور زیادہ تر ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں انسان بستے ہیں جو کئی طرح کی ایجادات اور تخلیقات کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور اس کے کسی بھی کونے میں ہونے والی ایجادات اور تخلیقات سے پوری دنیا کے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 1878 میں بلب ایجاد کرنے والا تھامس ایڈیسن مغرب سے تھا جبکہ اب بلب سے ساری دنیا روشن ہے۔ 1928 میں مغربی باشندے الگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین دریافت کر کے طِب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا جس سے تمام ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس طرح مادی ایجادات سے دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسی طرح ذہنی تخلیقات اور فنونِ لطیفہ بھی انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایجادات اور تخلیقات مشرق میں ہوں یا مغرب میں، انھیں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔
ہم جس طرح مغرب کی مادی ایجادات سے دور نہیں رہ سکتے، اِسی طرح ذہنی تخلیقات سے بھی دور نہیں رہ سکتے۔ اگر صرف زبان کو ہی لیجیے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان میں انسان کی سکھلائی جتنی زیادہ اور تیز ہوتی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ انسان اپنی زبان میں ترقی اور شعور کی منزلیں جِس تیزی سے طے کرتا ہے وہ نئی زبان میں مشکل ہے۔ لیکن کیا آج کے دور میں ہم دوسری زبانوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں سے۔ پنجاب کے کسی دورافتادہ گاﺅں میں بھی چلے جائیں جہاں کی زیادہ تر آبادی ان پڑھ ہو گی تو پانی پیتے ہوئے آپ جگ اور گلاس جیسے انگریزی زبان کے الفاظ سنیں گے جو کہ مغرب کی زبان ہے۔
خلیل الرحمن قمر صاحب کی مغرب سے نفرت سمجھ سے بالا ہے۔ ان کی تمام شناختوں میں سے نمایاں شہرت انہیں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملی۔ ڈرامہ فنونِ لطیفہ کی وہ صنف ہے جس کی تاریخ جاننے سے انہیں گہری دلچسپی ہونی چاہیے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں پانچویں صدی قبل ازمسیح میں کلاسیکی یونانی ڈرامہ ایک منظم شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی قبل ازمسیح میں یورپ میں کلاسیکی رومن ڈرامے میں جو تنوع، نفاست اور وسعت دیکھنے کو ملی، وہ پہلے کسی بھی ثقافت میں نہیں تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں لگ بھگ دسویں صدی بائبل کے واقعات پرمبنی ڈرامے بننے شروع ہوئے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں شیکسپئر اور دیگر تخلیق کاروں نے ڈرامے کو ایک نئی جہت دی۔
اگر اپنے خطے کی بات کی جائے تو پہلا ڈرامہ سنسکرت زبان میں تحریر کیا گیا۔ پہلی سے دسویں صدی کے درمیان ہزاروں ڈرامے لکھے اور پیش کئے گئے۔ ہند میں اسلامی فتوحات کے دور میں دسویں، گیارہویں صدی میں ڈرامے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بعد ازاں پندرھویں سے انیسویں صدی برِصغیر میں مقامی اقدار کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف علاقائی زبانوں میں تھیٹر دوبارہ شروع کیا گیا۔ ہندوستانی ڈرامہ کی موجودہ شکل انیسویں اور بیسویں صدی میں سامنے آئی۔ جدید ڈرامہ نگاری کے حوالے سے رابندرناتھ ٹیگور کا پورے برِصغیر میں بہت نام ہے۔
المختصر، ڈرامہ یونانی اور پھر لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں بنیادی حصہ مغرب کا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا پاکستانی اگر کلاسیکی یونانی یا رومن ڈرامے پڑھتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اگر کوئی ادب سے دلچسپی رکھنے والا انسان مغرب میں تخلیق کردہ ادب سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے تو اس میں طعنہ کیسا؟
ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟ اور کیا یہ حقیقی ہے؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک پاکستانی کے پاس برطانیہ یا چین میں رہائش رکھنے کا اختیار ہو تو اس کی ترجیح برطانیہ ہوتی ہے۔ اگر ایک پاکستانی کے پاس روزگار کے سلسلے میں بحرین یا کینیڈا جانے کا موقع ہو تو وہ کینیڈا کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر صرف ویزہ لگوانے کا ہی موقع مل جائے تو اپنے پاسپورٹ پر ملائشیا یا امریکہ میں سے امریکہ کی مہر ثبت کروائی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے باہر بھیجنا چاہتے ہیں تو مغربی ممالک کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر مغربی لکھاریوں کو پڑھنا غلط کیسا؟ پھر جھگڑا کیا؟ پھر طعنہ کیسا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا مشرقی ممالک پر سیاسی غلبہ (نو آبادیاتی حکمرانی) اور پھر اقتصادی غلبہ، یہ دونوں غلط ہیں۔ اس سے مشرقی ممالک کا استحصال ہوتا ہے۔ کیا اس کا حل خواہ مخواہ کی جعلی مغرب دشمنی ہے؟ مغرب کی ترقی، ان کے علم وفن سے مستفید ہو کر اپنے مسائل کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مغرب کی عقل ودانش اچھی باتوں اور اچھی چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی سوچ، خیال یا نظریے کو فرد کی علاقائی شناخت سے الگ رکھ کر اس پر مکالمہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ یہ مغرب کے باسی کی طرف سے آیا ہے یا مشرق کے۔ مغرب کا ادب پڑھنے میں کوئی برائی نہیں۔ مشرقی اور مغربی، قومی اور بین الاقوامی لکھاریوں کی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ذہن جلا پاتا ہے۔ اسے دنیا میں موجود مختلف نکتہ ہائے نظر کا پتہ چلتا ہے اور اپنے معروضی حالات کو تنقیدی طور پر دیکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ خود احتسابی کے ساتھ خود اصلاحی کا فن آتا ہے جو انسان کے آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے۔