اقتباسات ہمارے اصل مجرم!!

تمہیں پتہ ہے ہمارے اصل مجرم کون ہیں،جنہوں نے ہمارے ساتھ فریب کیا-ترقی پسند شاعر اور دانشور،انہوں نے ہمیں خواب دکھلائے-انقلاب کے رومان کی آگ میں زندہ جلا ڈالا- ہم دیکھیں گے،ہم نہ تو دیکھ سکے،نہ تاج اچھالےگئے نہ تخت گرائے گئے۔اور نہ خلق خدا نے راج کیا اور چاند کو گل کریں تو جانیں،تو چاند بھی گل ہو گیا--
اے غزال شب از مستنصر حسین تارڑ چاچا
 

صائمہ شاہ

محفلین
خواب ایک تحریک کا نام ہے اگر ہم تحریک بھی دوسروں کے خواب کی تعبیر کو سمجھتے ہیں تو کیا فائدہ اس شعور اور آگہی کا ۔
لازم تھا کہ ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے بجائے اس کے کہ شمع جلانے کی تحریک کو الزام دیتے ۔
 

طالب سحر

محفلین
تمہیں پتہ ہے ہمارے اصل مجرم کون ہیں،جنہوں نے ہمارے ساتھ فریب کیا-ترقی پسند شاعر اور دانشور،انہوں نے ہمیں خواب دکھلائے-انقلاب کے رومان کی آگ میں زندہ جلا ڈالا- ہم دیکھیں گے،ہم نہ تو دیکھ سکے،نہ تاج اچھالےگئے نہ تخت گرائے گئے۔اور نہ خلق خدا نے راج کیا اور چاند کو گل کریں تو جانیں،تو چاند بھی گل ہو گیا--
یہ جملہ کسی ناول یا فلم میں تو یقینی طور پر پُراثر ہوگا، لیکن اس جملے میں ترقی پسند تحریک کی کوئی معروضی assessment تو نہیں ہے اور شاید ناول کے مکالمے کے طور پر ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔

لازم تھا کہ ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے بجائے اس کے کہ شمع جلانے کی تحریک کو الزام دیتے ۔
حسن عابد (جو کہ پوری زندگی unapologetically ترقی پسند تحریک سے جُڑے رہے) کا ایک شعر :
ہوا کرتی ہے اپنا کام اور شمعیں بجھاتی ہے
ہم اپنا کام کرتے ہیں، نئی شمعیں جلاتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا اقتباس ہے۔

دراصل یہ ایک مختلف نقطہ نظر ہے جو مصنف نے اپنی تحریر میں پیش کیا ہے اور مختلف نقطہ نظر کی بہرکیف اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔

زندہ رہنے کے لئے اُمید ضروری ہوتی ہے لیکن مستقل درپیش آنے والی محرومیاں اور مایوسیاں بھی ہمارے اظہار کا حصہ بنتی ہیں اور بننا بھی چاہیے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ایک ناول 'قلعہ جنگی' کی ہی بات کی جائے کہ اس میں جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اُسے پیش کرنے کے لئے اُمید کی نہیں بلکہ مایوسی کی ہی ضرورت ہے اور بیانیہ میں معاملات حسبِ ضرورت ہی برتے جاتے ہیں نہ کہ حسبِ منشا۔
 
شکریہ جناب۔
خواب ایک تحریک کا نام ہے اگر ہم تحریک بھی دوسروں کے خواب کی تعبیر کو سمجھتے ہیں تو کیا فائدہ اس شعور اور آگہی کا ۔
لازم تھا کہ ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے بجائے اس کے کہ شمع جلانے کی تحریک کو الزام دیتے ۔
وہ فراز صاحب کا شعر ہے کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بات تو یہ ٹھیک ہے لیکن دوسرا رخ دیکھنے میں کیا حرج ہے؟
یہ جملہ کسی ناول یا فلم میں تو یقینی طور پر پُراثر ہوگا، لیکن اس جملے میں ترقی پسند تحریک کی کوئی معروضی assessment تو نہیں ہے اور شاید ناول کے مکالمے کے طور پر ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔

جی بھائی یہ ناول کا ہی اقتباس ہے باقی اگر آپ اپنی بات پر تھوڑی اور روشنی ڈال دیں تو عین نوازش ہوگی۔
اچھا اقتباس ہے۔

دراصل یہ ایک مختلف نقطہ نظر ہے جو مصنف نے اپنی تحریر میں پیش کیا ہے اور مختلف نقطہ نظر کی بہرکیف اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔

زندہ رہنے کے لئے اُمید ضروری ہوتی ہے لیکن مستقل درپیش آنے والی محرومیاں اور مایوسیاں بھی ہمارے اظہار کا حصہ بنتی ہیں اور بننا بھی چاہیے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ایک ناول 'قلعہ جنگی' کی ہی بات کی جائے کہ اس میں جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اُسے پیش کرنے کے لئے اُمید کی نہیں بلکہ مایوسی کی ہی ضرورت ہے اور بیانیہ میں معاملات حسبِ ضرورت ہی برتے جاتے ہیں نہ کہ حسبِ منشا۔

شکریہ احمد بھائی۔ قلعہ جنگی کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا۔ سوچ رہا ہوں مہینہ چاچا مستنصر مناؤں اور زیادہ تر ناول پڑھ ہی ڈالوں۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
جی بھائی یہ ناول کا ہی اقتباس ہے باقی اگر آپ اپنی بات پر تھوڑی اور روشنی ڈال دیں تو عین نوازش ہوگی۔

میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ جوجملے مستنصر حسین تارڑ کے ناول سے آپ نے quote کئے ہیں، وہ اُس ناول کے سیاق و سباق میں تو یقینی طور پر پُراثر رہے ہوں گے۔ ناول میں نے نہیں پڑھا ہے۔ اقتباس میں دیے گئے جملوں کی بناوٹ سے ایسا لگتاہے کہ ناول کا ایک کردار دوسرے کردار کو کچھ بتا رہاہے۔ یہ بھی اندازا ہو ہی جاتا ہے کہ بولنے والے کردار کے لہجے میں تلخی ہے۔ ناول کے پڑھنے میں مکالمے کا یہ حصہ اپنےبہت سارے معانی بآسانی ظاہر کرسکتا ہے، اور ممکن ہے کہ ناول کے پلاٹ میں مذکورہ جملے کی کوئی کلیدی حیثیت بھی ہو۔ لیکن جب اِس جملے کو ہم ناول سے نکال کر پڑھتے ہیں تو اس کی قراءت کا یہ معاملہ نہیں رہتا۔ اب یہ جملہ فکشن کے domain سے نکل کر بظاہر کسی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے۔ ناول میں تو دو (یا دو سے زیادہ) کرداروں کے درمیان بحث مباحثہ ہو رہا ہو گا لیکن یہاں محفل پر بطور اقتباس مکالمے کا یہ حصہ statement بن گیا ہےجب کہ ان جملوں میں ترقی پسند تحریک کے بارے میں کوئی معروضی assessment نہیں ہے ۔
 

سید رافع

محفلین
اچھا اقتباس ہے۔

دراصل یہ ایک مختلف نقطہ نظر ہے جو مصنف نے اپنی تحریر میں پیش کیا ہے اور مختلف نقطہ نظر کی بہرکیف اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔

زندہ رہنے کے لئے اُمید ضروری ہوتی ہے لیکن مستقل درپیش آنے والی محرومیاں اور مایوسیاں بھی ہمارے اظہار کا حصہ بنتی ہیں اور بننا بھی چاہیے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ایک ناول 'قلعہ جنگی' کی ہی بات کی جائے کہ اس میں جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اُسے پیش کرنے کے لئے اُمید کی نہیں بلکہ مایوسی کی ہی ضرورت ہے اور بیانیہ میں معاملات حسبِ ضرورت ہی برتے جاتے ہیں نہ کہ حسبِ منشا۔

آپ نے بہت عمدہ طریقے سے اقتباس کو واضح کر دیا۔ کیا ادب کو اپنے عہد کا آئینہ ہونا چاہیے یا عہد ساز؟
 

سیما علی

لائبریرین
سب کچھ ممکن ہے، چھیننا نہیں
‏محبت کی بھیک مانگی جا سکتی ہے، اسے خریدا جا سکتا ہے، تحفے میں مل سکتی ہے، گلی میں مل سکتی ہے، لیکن اسے چھینا نہیں جا سکتا۔

‏(ہَیرمان ہَیسے کے ناول “سدھارتھ” سے اقتباس، جرمن سے اردو ترجمہ: مقبول ملک)
 

سیما علی

لائبریرین
‏“یہ کائنات ہمارے لیے اس وقت اہم ہوتی ہےجب ہم کسی کو اپنے دکھ سکھ میں شریک کر سکیں .......!!”
‏( ⁧‫#پاؤلو_کوئیلھو‬⁩ ۔ ناول “گیارہ منٹ” سے اقتباس ۔ اردو ترجمہ: عدیل احمد )
 

سیما علی

لائبریرین
‏" اس کائنات کا ایک سب سے بڑا سچ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جو کوئی بھی ہو اور کچھ بھی کرے لیکن جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کر لے ، تو وہ ہو کے رہتا ہے....!!"

‏( پائولو کوئیلو ۔ ناول "الکیمسٹ" سے اقتباس ۔ اردو ترجمہ : عمر الغزالی )آپ
 

سیما علی

لائبریرین
جس تصویر کو ایک ہی رخ سے دیکھنے کی عادت برسوں پرانی ہو اس تصویر کے کسی دوسرے رخ کی نشاندہی کر بھی دی جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا- انسان پرانی باتوں, پرانی یادوں اور پرانے تجزیوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے -

‏آمنہ ریاض کے ناول " دشتِ جنوں " سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
آنسو بہت۔۔۔ کمال کی چ۔۔۔۔یز ہوتے ہیں۔ دیک۔۔۔۔ھنے میں بہت شفاف۔۔۔۔۔ نظر آتے ہیں حالانکہ پتا ن۔۔۔ہیں کتنا میل، کتنا کھوٹ، کتنا پچھ۔۔۔۔۔تاوا یہ اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہے ہوتے ہیں۔۔
‏(عمیرہ احمد کے ناول " بس اک داغِ ندام۔۔۔۔ت " سے اقتباس)
 
Top