ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے

غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(غالب کی زمین میں )​
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے
تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے
نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں
یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے
تمام عمر اُٹھائے جو بوجھ سب تھے ہیچ
صلیب آخری بارِ دِگر ہے کیا کہیے
ابھی تو وصل کی یہ ساعتیں ملی ہیں ہمیں
ابھی جناب سے اِذنِ سفر ہے کیا کہیے
میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ
سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے
 
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے
تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے
نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں
یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے

میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ
سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے
واہ واہ واہ بہت خوب جناب
 

مزمل حسین

محفلین
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(غالب کی زمین میں )​
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے
تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے
نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں
یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے
تمام عمر اُٹھائے جو بوجھ سب تھے ہیچ
صلیب آخری بارِ دِگر ہے کیا کہیے
ابھی تو وصل کی کچھ ساعتیں ملی ہیں ہمیں
ابھی جناب سے اِذنِ سفر ہے کیا کہیے
میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ
سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے
واہ واہ بہت خوب
 
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے
تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے
نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں
یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے

میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ
سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے
واہ واہ واہ بہت خوب جناب
پسندیدگی کا شکریہ قبول کیجیے محمد اظہر نذیر بھائی
جزاک اللہ الخیر
 
سبحان اللہ​
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے
تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے
داد قبول کریں خلیل صاحب​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن اصلاح سخن میں ہے، اس لئے کچھ نہ کچھ بہتری کے مشورے ضرور دے سکتا ہوں۔
نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں​
یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے​
÷÷​
یوں بہتر ہو سکتا ہے​
ہے صحنِ گل نہ دریچے کہ/جو وا ہوں گلشن میں​
یہ ریگ زار اب اپنا ہی گھر ہے کیا کہیے​
تمام عمر اُٹھائے جو بوجھ سب تھے ہیچ​
صلیب آخری بارِ دِگر ہے کیا کہیے​
÷÷ پہلا مصرع یوں زیادہ رواں ہو سکتا ہے÷​
تمام عمر اُٹھائے جو بوجھ، ہیچ تھےسب​
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب جناب

میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ
سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے
 
Top