ہمارے غور کرنے کو ہوا ہے
فضا ہے، روشنی ہے اور گھٹا ہے
میں کرتا بھی ہوں اُس کا شکر لیکن
مرے دل میں عجب اک خوف سا ہے
نہ چھوڑیں دین کا دامن کبھی ہم
اِسی میں اپنی اچھائی، بھلا ہے
نہیں جھکتی اگر گردن ہی آگے
خدا سے عشق کا دعویٰ بھی کیا ہے
بڑائی ہے سب اُس کے واسطے دوست
یہ مانا مَیں کہ تُو عالِم بڑا ہے
اگر دیکھیں تو کس شے میں نہیں وہ
ہماری ذات خود اُس کا پتا ہے
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا کہ باقی
ہماری آنکھ میں شرم و حیا ہے