محمداحمد
لائبریرین
یہ ایک عمدہ خیال ہے ۔ اس سال بیکن اور سٹی کے والدین نے بھی لاک ڈاؤن میں متاثر لوگوں کی جو اپنے بچوں کے لیے اسٹدی پیک نہیں خرید سکتے تھے واٹس ایپ گروپ بنا کراسی طرح مدد کی اور بائیکیا کے ذریعے ان کے گھروں تک پہنچا دیا اس طرح کسی عزت نفس بھی مجروع نہیں ہوئی ۔ یہ عام طور پر خوشحال چھوٹے کاروباری حضرات تھے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔
بیکن، سٹی، روٹس کو تو خود ہی خیال ہونا چاہیے اگر ایک سال ہر بچے کو بھی سٹڈی پیک مفت دے دیں پھر بھی ان کی جمع پونجی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لیکن اچھی بات ہے کہ والدین ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھ رہے ہیں۔
یہ خیال رکھ ہی نہ لیں - یہ تعلیمی ادارے کم اور بزنسز زیادہ ہیں ۔
مگر یہ چاہے کتنے ہی کمرشل بنیادوں پر بنے ہوں ان کی موجودگی نے سرکاری اسکولوں کے ناقص تعلیمی نظام کا عمدہ بدل فراہم کیا ہے ۔ ان کی یہ مہربانی بھی لائق تحسین ہے ۔
یہ بات واقعی درست ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ ان کی مہربانی 'افورڈ' نہیں کر سکتا۔
یہ تو ہے ۔ مگر دیکھیے کہ پھر بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اور یہ ایک بڑی آبادی کو باعزت روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں ۔ یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ ہر اسٹریٹ پر آپ کو یہ اسکولز ملیں گے اور کچھا کھچ بھرے ہیں ۔ ہم جیسی ایورج مڈل کلاس بھی ہمت کر کے افورڈ کر ہی لیتی ہے ۔
یہ ایک مثبت بات ہے۔
لیکن اگر یہ متبادل موجود نہیں ہوتا تو پھر تمام تر لوگ بشمول حکومت میں موجود لوگ اس بات کی کوشش کرتے کہ سرکاری اسکولز کا معیار بلند کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی وہا ں پڑھتے۔
موجودہ صورتحال میں جب تعلیم درجات اور طبقات میں بٹ گئی تو سرکاری لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ غریب کے بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیونکہ ان کے بچے تو بہتر نظام میں تعلیم پا رہے ہیں۔
غریب کے بچے پڑھ بھی نہیں پا رہے یا پڑھ بھی رہے ہیں تو اسی ناکارہ نظام سے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ بھی اُسی غربت والی کلاس میں رہیں گے اور سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے بچے طبقاتی فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔
یعنی یہ متبادل نظام موجود نہ ہوتا تو سب کے لئے بہتری ہوتی ۔
اسی بات کو سرکاری ہسپتالوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ۔
اگر سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے علاج کے لئے بہترین نجی ہسپتال میسر نہ ہوں تو وہ لوگ کوشش کریں گے کہ سرکاری ہسپتالوں کو ہی بہتر کریں ۔ تاکہ اُن کے اپنے اور وہ خود بہتر علاج پا سکیں۔
ہمارا موجودہ نظام سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کی خود غرضی پر مبنی ہے۔
شکریہ ۔
آپ کی اسی بات کو دیکھتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گی ۔ امید ہے بات پسند نہ آنے پر درگزر فرمائیں گے ۔
حکمرانوں کے بچے ان سے بھی مہنگے اسکولوں میں یا ملک سے باہر پڑھتے ہیں ۔ ان کرپٹ لوگوں کا عوام کو تعلیم دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ ڈھائی سو ارب ایک ٹرین پر خرچ کرنے کے بجائے پورے پنجاب میں اسکولوں کا جال بچھا دیتے ۔ سندہ میں اسکولوں میں اوطاقیں نہ بنائی جاتیں یا جانور نہ باندھے جاتے ۔ ان کو ووٹرز چاہیئں اس لیے یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے ۔ چاہے پرائیویٹ اسکولز ہوں یا نہ ہوں ۔ کے پی میں جیسے ہی اسکولز بہتر ہوئے لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سےنکالا ۔
یہ بالکل بجا فرمایا آپ نے ۔ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے بھی ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہیں ۔ تعلیم اب غریب کی ترجیع ہے ہی نہیں ۔ وہ روٹی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ جب تک لازمی تعلیم سے متعلق کوئی سخت پالیسی نہیں بنتی غریب بچوں کی تعلیم ایک خواب ہی رہے گا ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟
جب سے اساتذہ سیاسی بنیادوں پر یا پیسے دے کر نوکری لینے لگے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار گر گیا ہے ۔ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ اسکول یا تو موجود ہی نہیں یا ان کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟
میں نے گرافکس کی تعلیم کے لیے ایک سرکاری ادارے میں داخلہ لیا ۔ اس کے بڑے بڑے اشتہارات اخبار میں آتے ہیں ۔ مگر میرا بےکار وقت ضائع ہوا ۔ ساری باتیں ایک طرف، محترمہ استاد کا رویہ سب بچوں کے ساتھ خاصا ہتک آمیز تھا ۔ ہر بات پر طنز اور دھمکیاں۔ اگر کچھ بات پوچھو تو صرف ایک جواب کہ کورس میں یہ شامل نہیں ۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ان کو سوفٹویرز کی بیسک چیزیں ہی معلوم ہیں - ہر روز ذہنی کوفت ہوتی تھی ۔ جیسے تیسے کورس ختم کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی خاصی فیس دے کر داخلہ لیا اور پھر معلوم ہوا کہ کیا فرق ہے ۔ اتنا اچھا ماحول، زبردست اساتذہ، اور ہر بچے کی بات کا جواب جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائے ۔ بتائے اگر یہ پرائیویٹ ادارے نہ ہوں تو لوگوں کا کتنا وقت ضائع ہو ۔ حالانکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہ کہیں زیادہ ہے مگر وہ بادشاہ لوگ ہیں اپنے آپ کو بالکل بھی اپ ڈیٹ نہیں کرتے اور بچوں کو ڈرا ڈرا کے عزت کرواتے ہیں ۔
تمام تر باتوں سے متفق ہوں۔
اور آپ کی ان باتوں کے تناظر میں مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں عار نہیں ہے کہ سرکاری اداروں کی غیر فعالیت (نا اہلی) کی موجودگی میں پرائیویٹ ادارے غنیمت ہیں۔
اگ ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
خود میں نے چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھا۔ اور وہ اُس وقت بہت اچھا اسکول تھا اور مجھے اُس اسکول سے پڑھنے پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔
بہرکیف ہماری گفتگو موضوع سے بالکل ہٹ گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ منتظمین یہ سوچیں کہ "رکھیں یا پھینکیں"۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم طبقاتی تفریق کا اس بری طرح شکار ہیں کہ اس کو نارمل سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں احمد کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ اگر بلا تفریق ہر کسی پر صرف سرکاری اداروں ہی سے مستفید ہونے کی پابندی ہوتی تو شاید ان اداروں میں بہتری آتی لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ امرا کے پاس بہترین آپشن موجود ہوتے ہیں اور سفید پوش طبقہ انھی امرا کے کاروباری مقاصد کے تحت قائم شدہ اداروں میں اپنی جمع پونجی لٹاتا پھرتا ہے۔
مجھے پاکستان میں اس سطح پر کام کرتے لگ بھگ ایک دہائی ہونے کو ہے جہاں میرا رابطہ پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے ناموں کے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ سب کاروبار ہے۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ چلو کسی حد تک لوگوں کو ان اداروں کے ذریعے روزگار تو مل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے اور بھاو تاو کر کے اساتذہ رکھے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کا تدریسی میعار میں بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے پھر۔
باقی رہی بات طلبہ کی تو میری کچھ عرصہ پہلے کی ایک چھوٹے سے لیول کی تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی کہ اس وقت بڑے بڑے اداروں، سرکاری و غیر سرکاری میں جتنے نوجوان افسر ہیں زیادہ تر مہنگے ترین پرائیویٹ اداروں سے تحصیل یافتہ ہیں اور اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام آدمی کی روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ پاکستان کے جغرافیہ و تاریخ سے بھی اسی حد تک آگہی ہوتی ہے جتنی بورڈ یا کیمبرج کے امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہے۔
خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ اور اس لڑی کے عنوان سے میل بھی نہیں کھاتی تو بات ختم کرتی ہوں۔