ہمارے نجی تعلیمی ادارے ، تعلیم کے فروغ کے لئے کتنے مددگار ہیں؟

ثمین زارا

محفلین
مگر ہمیں وہاں تک پُہنچنے کے لیے بہت وقت چاہیے۔ ۔
صرف اور صرف قانون کی عمل داری یقینی بن جائے تو سب ٹیکس دیں گے ۔ چور ہی جب چوکیدار ہو تو کیا کیجیے ۔ ان کو چار پانچ سو سال بھی دے دیجیے انہوں نے کچھ نہیں کرنا ۔ اگر عمران خان نے بھی کچھ نہ کیا تو قوم اس کو کبھی معاف نہ کرے گی ۔
 

ثمین زارا

محفلین
جن لوگوں کو انکم ٹیکس دینا چاہیے ان میں سے محض چند افراد ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں۔ اور وہ بھی پورا نہیں دیتے۔

راولپنڈی کے راجہ بازار کے تقریباً وسط میں ایک بازار "نرنکاری بازار" کے نام سے ہے۔ اس میں اتنا زیادہ کاروبار ہوتا ہے کہ ہر دکاندار کروڑوں اربوں کا مالک ہے۔ روزانہ ہر دکاندار لاکھوں کا مال فروخت کرتا ہے لیکن کوئی بھی دکاندار پرنٹڈ کیش میمو نہیں دیتا۔ سادے کاغذ پر بل بنا کر دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب ٹیکس سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال دی ہے میں نے۔

لاہور کی شالمی مارکیٹ اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ اور کراچی کا تو آپ کو اچھی طرح سے علم ہو گا۔

اس کے علاوہ کتنے زمیندار ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں؟ میرے خیال میں ایک فیصد زمیندار بھی ٹیکس نہیں دیتا ہو گا۔

مغربی ممالک میں انکم پر بعض اوقات 40 سے 50 فیصد تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن پھر سہولتیں بھی تو اسی حساب سے ہیں۔ صرف انگلینڈ میں ایسے تمام لوگ جو کرونا کی وجہ سے بے روزگار ہوئے، حکومت تب سے لیکر آیندہ اپریل تک ان کو ان کی تنخواہ کا 80 فیصد ادا کر رہی ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے کہ وہاں پر لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں۔ یا پھر انہوں نے ایسا نظام وضع کر لیا ہوا ہے کہ کوئی ٹیکس سے بچ نہیں سکتا۔
یہ سب باتیں سب کو معلوم ہیں پھر بھی سمجھنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ میری سمجھ سے باہر ہے ۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ثمین زارا جی عوام تو کھوتہ بریانی یا دو سو روپے فی کس پر بڑے آرام سے راضی ہو جاتے ہیں، پھر وڈیروں کو ٹیکس دینے کی کیا ضرورت ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سب باتیں سب کو معلوم ہیں پھر بھی سمجھنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کرتا ۔ میری سمجھ سے باہر ہے ۔
کیونکہ اوپر سے نیچے تک سب جانتے ہیں اور کاغذی خانہ پوری کے لیے برائے نام ٹیکس دے کر اپنے آپ کو ٹیکس دیندگان میں شامل کر لیتے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو جائے کہ خود سے ٹیکس دیں تو یہ شعور پاکستان عوام میں قیامت تک نہیں آ سکتا۔

مزید یہ کہ ہمارے ملک کا ٹیکس کا نظام بھی کچھ خاص قابل قدر نہیں، اس میں بہت سے لوپ ہول ہیں۔
 

ثمین زارا

محفلین
کیونکہ اوپر سے نیچے تک سب جانتے ہیں اور کاغذی خانہ پوری کے لیے برائے نام ٹیکس دے کر اپنے آپ کو ٹیکس دیندگان میں شامل کر لیتے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو جائے کہ خود سے ٹیکس دیں تو یہ شعور پاکستان عوام میں قیامت تک نہیں آ سکتا۔

مزید یہ کہ ہمارے ملک کا ٹیکس کا نظام بھی کچھ خاص قابل قدر نہیں، اس میں بہت سے لوپ ہول ہیں۔
جی ٹھیک کہا ۔ اس لیے تمام لوگوں نے اپنے لیے عمدہ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، کلبز سے لے کر ہسپتال تک بنا لیے ہیں جہاں مجبوری میں عام عوام بھی اپنا پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ یہ عمران خان کو اسی لیے تو مل کر ہٹانا چاہتے ہیں کہ ان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ۔ کہاں پی پی پی کہاں نون لیگ کہاں مولوی اور کہاں یہ قربتیں ۔ اللہ کی شان دیکھیں۔
 

ثمین زارا

محفلین
ثمین مجھے اندازہ نہیں کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہی ہیں کہ ان اداروں کا حصہ بنے بغیر ایسے ہی خیالات ذہن میں آ سکتے ہیں۔ میرا ان اداروں کا تجربہ ان کا حصہ بن کر اور اس فیلڈ میں ہونے کے حوالے سے اب اتنا ہو چکا ہے کہ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے رائے قائم بھی کر سکتی ہوں اور دے بھی سکتی ہوں۔ خیر آپ کی بہت سی باتیں درست بھی ہیں اور ان پر مزید گفتگو بھی کی جا سکتی ہیں۔ ان شاءاللہ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
اوکے میم ، دوبارہ تمام مراسلے پڑھ کر جلد جواب دینے کی کوشش کرتی ہوں کہ ایسا کیوں لکھا تھا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بلکل غلط بات ہے
بائیس کروڑ افراد کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی ٹیکس دے رہے ہوتے ہیں
مگر اصل بات یہ ہے کہ بیس تک لاکھ لوگ ٹیکس ریٹن جمع کرواتے ہیں ۔
مغربی ممالک میں انکم پر بعض اوقات 40 سے 50 فیصد تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن پھر سہولتیں بھی تو اسی حساب سے ہیں۔ صرف انگلینڈ میں ایسے تمام لوگ جو کرونا کی وجہ سے بے روزگار ہوئے، حکومت تب سے لیکر آیندہ اپریل تک ان کو ان کی تنخواہ کا 80 فیصد ادا کر رہی ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے کہ وہاں پر لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں۔ یا پھر انہوں نے ایسا نظام وضع کر لیا ہوا ہے کہ کوئی ٹیکس سے بچ نہیں سکتا۔
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ناروے ہر سال اپنا ۵۰ فیصد ٹیکس ڈائرکٹ ٹیکسیشن سے حاصل کرتا ہے۔ جبکہ صرف ۲۵ فیصد ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسیشن سے آتا ہے۔ اور پھر اسی حساب سے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ عوام کی فلاح بہبود یعنی سوشل ویلفیر پر خرچ ہوتا ہے:
آمدن ۲۰۲۰

اخراجات ۲۰۲۰

اس کے مقابلہ میں پاکستان اپنے بجٹ کا قریبا آدھا حصہ پچھلی حکومتوں کے چڑھائے ہوئے قرضے اتارنے میں صرف کر رہا ہے۔ یہی عوام ڈائرکٹ ٹیکس دینا شروع کر دے تو حکومت کے پاس عوام کی فلاح بہبود کیلئے بھی وسائل وافر مقدار میں موجود ہوں گے۔ یوں ٹیکس دینا ہر شہری کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنا پورا زور لگا کر بھی ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتی ہے اگر شہریوں کی ذہنیت ٹیکس دینے کے خلاف ہو۔ نتیجتا ہر حکومت باہر سے مزید قرضے لے گی، نوٹ چھاپے گی، ان ڈائرکٹ ٹیکس بڑھائے گی جس سے کبھی بھی عوام خوشحال نہیں ہو سکتی۔
4-E1-E4-E42-3037-4869-B6-A7-815-C4-A08863-B.jpg

0-E6-A5-B05-37-BA-47-FE-B8-BC-D091767-B7-A37.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صرف پی پی پی ٹولہ اور ن لیگ ٹولہ اپنی تمام دولت غیر ممالک سے پاکستان لے آئیں، بھلے ہی حکومت کو نہ دیں، لیکن اپنی دولت پاکستانی بنکوں میں جمع کروا دیں، تو ملک کا آدھا قرضہ تو بڑے آرام سے اتر جائے گا۔
 

ثمین زارا

محفلین
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ناروے ہر سال اپنا ۵۰ فیصد ٹیکس ڈائرکٹ ٹیکسیشن سے حاصل کرتا ہے۔ جبکہ صرف ۲۵ فیصد ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسیشن سے آتا ہے۔ اور پھر اسی حساب سے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ عوام کی فلاح بہبود یعنی سوشل ویلفیر پر خرچ ہوتا ہے:
آمدن ۲۰۲۰

اخراجات ۲۰۲۰

اس کے مقابلہ میں پاکستان اپنے بجٹ کا قریبا آدھا حصہ پچھلی حکومتوں کے چڑھائے ہوئے قرضے اتارنے میں صرف کر رہا ہے۔ یہی عوام ڈائرکٹ ٹیکس دینا شروع کر دے تو حکومت کے پاس عوام کی فلاح بہبود کیلئے بھی وسائل وافر مقدار میں موجود ہوں گے۔ یوں ٹیکس دینا ہر شہری کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنا پورا زور لگا کر بھی ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتی ہے اگر شہریوں کی ذہنیت ٹیکس دینے کے خلاف ہو۔ نتیجتا ہر حکومت باہر سے مزید قرضے لے گی، نوٹ چھاپے گی، ان ڈائرکٹ ٹیکس بڑھائے گی جس سے کبھی بھی عوام خوشحال نہیں ہو سکتی۔
4-E1-E4-E42-3037-4869-B6-A7-815-C4-A08863-B.jpg

0-E6-A5-B05-37-BA-47-FE-B8-BC-D091767-B7-A37.jpg
بھئی ناروے میں انڈائیریکٹ ٹیکسیشن ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ تمام لوگ ہی خوشحال ہیں ۔ یہ ایک فلاحی ریاست ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود پر ان کا پیسہ ایمانداری سے خرچ کیا جاتا ہے ۔ یعنی ان کا پیسا بالآخر ان کے ہی کام آتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں ایک عام غریب انسان پیٹ کاٹ کر یہ ٹیکسز دیتا ہے اور اس کا پیسہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے اور وہ غریب سے غریب تر ہو تا جاتا ہے جو کہ ظلم ہے ۔
 

ثمین زارا

محفلین
ثمین مجھے اندازہ نہیں کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہی ہیں کہ ان اداروں کا حصہ بنے بغیر ایسے ہی خیالات ذہن میں آ سکتے ہیں۔ میرا ان اداروں کا تجربہ ان کا حصہ بن کر اور اس فیلڈ میں ہونے کے حوالے سے اب اتنا ہو چکا ہے کہ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے رائے قائم بھی کر سکتی ہوں اور دے بھی سکتی ہوں۔ خیر آپ کی بہت سی باتیں درست بھی ہیں اور ان پر مزید گفتگو بھی کی جا سکتی ہیں۔ ان شاءاللہ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
اسلام و علیکم میم،
آپ کی اس بات کو پڑھ کر ذہن میں آیا تھا کہ شائد جن لوگوں سے بات کی وہ ٹھیک طرح اپنا نقطہء نظر پیش نہ کر سکے ہوں اس لیے آپ نے درج ذیل رائے قائم کی ۔
"مجھے پاکستان میں اس سطح پر کام کرتے لگ بھگ ایک دہائی ہونے کو ہے جہاں میرا رابطہ پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے ناموں کے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ سب کاروبار ہے۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ چلو کسی حد تک لوگوں کو ان اداروں کے ذریعے روزگار تو مل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے اور بھاو تاو کر کے اساتذہ رکھے جاتے ہیں۔ "

آپ کے اس سوال کے جواب میں بس یہ کہنا چاہوں گی کہ عموما والدین، اساتذہ اور بچے جو کہ ان اداروں سے وابستہ ہیں اور ان کی اکثریت بڑی حد تک مطمئن ہے کہ بہرحال یہ ادارے تعلیم مہیا کر رہے ہیں ورنہ بچوں کا کیا حال ہوتا، والدین کیا کرتے اور اساتذہ کس طرح کام کرتے ۔ آپ یہ بھی یقینآ جانتی ہوں کہ اب تو سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز تک میں پڑھائی نہیں ہوتی ۔ لوگ کوچنگ سینٹرز میں جا کر پڑھتے ہیں ۔ اور سرکاری سطح پر کسی طرف سے اچھے کی امید نہیں ۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
آپ دونوں کی بات سے اتفاق ہے..
نجی تعلیمی اداروں کے لئے لوگ (والدین) صارف ہیں اور ان کا اہم کام صارفین کو مطمئن کرنا ہے
اور اس میں وہ کامیاب ہیں -
 

محمداحمد

لائبریرین
اس تمام گفتگو سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دو اسکول سسٹم یعنی سٹی اسکول اور بیکن ہاؤس اور اس قبیل کے سیکنڈری ٹیئر کے اسکول بھی اگر ہم ان میں شامل کر لیں تو یہ پاکستان کے کتنے فیصد طالبِ علموں کی ضرورت کے لئے کافی ہوتے ہوں گے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
وارث بھائی کے جواب سے ایک ذیلی سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ایک گھرانے کے کل بجٹ کا کتنا فی صد حصہ بچوں کی تعلیم کے کے لئے مختص ہونا چاہیے؟
 
Top