محمداحمد
لائبریرین
ہمدرد ۔۔۔ ایک درد مند دل کا فسانہ
از محمد احمد
یہ محض اتفاق ہی تھا کہ بس میں رش نہیں تھا ورنہ کراچی جیسے شہر میں اگر بس کے پائیدان پر بھی آپ کو جگہ مل جائے تواسے بڑی خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید دوپہر کے ساڑھے تین سے چار بجے کا وقت ہوگا عموماً اس وقت تک ٹریفک کا زیادہ بہاؤ رہائشی علاقوں سے تجارتی مراکز کی جانب ہوتا ہے اور شام میں یہ صورتِ حال بالکل برعکس ہوتی ہے غالباً یہی وجہ تھی کہ مجھے بس میں با آسانی نشست مل گئی تھی۔ دراصل آج شام کو ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی جس کے لئے کچھ تیاری میری لاپرواہی کے نتیجے میں آخری دن تک چلی آئی تھی اسی لئے آج میں خلافِ معمول جلد ہی دفتر سے نکل آیا تھا ۔ اگر تقریب میں شرکت ضروری نہ ہوتی تو شاید یہی بات میرے لئے تقریب سے کنارہ کشی کا ایک اچھا بہانہ بھی بن سکتی تھی لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں نبھانا ہی پڑتا ہے۔
بس سست رفتاری سے چل رہی تھی اورلوگ ذرا ذرا سے فاصلے پر بس میں سے چڑھ اور اُتر رہے تھے۔ بس میں دو رویہ نشستوں کا انتظام تھا۔ بیچ میں راہداری تھی جو رش کے اوقات میں مسافروں کے کھڑے ہونے کے کام آتی تھی۔ میں اپنے خیالات اور راستے کے مناظر کے مابین کہیں گم تھا کہ میری نشست کے متوازی نشست کے دونوں مُسافر ایک ساتھ اُتر گئے خیال آیا کہ کیوں نہ اس نشست پر پہنچ جاؤں،اِن بسوں کی اکثر نشستیں تکلیف دہ ہی ہوا کرتی ہیں اسی خیال سے مسافر خالی ہونے والی نشستو ں پر منتقل ہوتے رہتے ہیں کہ شاید اگلی نشست کچھ آرام دہ یا بہتر ہو۔ عموماً یہ بات تھکے ماندے مُسافروں کی خام خیالی ہی ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائےکہ اُمیدوں کا سہارا نہ ہو تو سفر اور بھی دشوار ہو جاتا ہے، بہرکیف اس دفعہ بھی میں نے سوچنے میں بہت دیر لگا دی اور پچھلی نشست سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص ا س نشست پر آکر براجمان ہوگیا اُس کے ساتھ ایک دس بارہ سالہ لڑکا بھی تھا یہ اتفاق ہی تھا کہ ادھیڑ عمر شخص جو شاید لڑکے کا باپ تھا کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا اور لڑکے نے بغیرکسی احتجاج کے کھڑکی کی دوسری طرف والی نشست سنبھال لی تھی ورنہ اکثر اوقات بچے کھڑی کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔
میں بے خیالی میں لڑکے کا جائزہ لینے لگا ۔ وہ ملگجے سے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا جو کثرتِ استمال کے باعث اپنی اصلی رنگت اور پہچان کھو چکے تھے اوراپنی خستہ حالی کی زبانی غربت اور افلاس کی کی کہانی سنا رہے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں وہ بے حد بہت ملول اور اُداس نظر آیا، آنکھوں میں زردیاں سمیٹے وہ اپنے دھیان میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا، پھر میری نظر اُس کے ہاتھ پر پڑی ۔اس کے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی شفاف تھیلی تھی جس میں سُرخ رنگ کا محلول نظر آرہا تھا ۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکا بیمار تھا اور کسی سرکاری ڈسپنسری سے دوا کے نام پر سُرخ رنگ کا مکسچر لے کر آیا تھااُس کی آنکھوں کی گرد پڑے گہرے حلقے میری بات کی تصدیق کررہے تھے۔
مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب اسی قسم کی دوا کے حصول کے لئے لوگ گھر وں سے استعمال شدہ بوتلیں لے کر جاتے تھے اوراُن میں سرکاری دوا خانوں سے اسی قسم کا سُرخ مکسچر لے آتے تھے پھر پلاسٹک کی تھیلیوں نے گھر سے بوتل لے جانے کا ٹنٹا تو ختم کردیالیکن سرخ رنگ کا یہ مکسچر کسی نہ کسی شکل میں اب تک سرکاری اور نچلے درجے کے ہسپتالوں کی روایت کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اُس زمانے میں صرف یہ سُرخ دوا ہی مریض کو صحتیابی کا راستہ دکھا دیتی تھی لیکن اب اس کی افادیت برائے نام ہی رہ گئی ہے بیشتر لوگ تو اسے پینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھربھی غریب طبقہ جسے مہنگی دوائیں خریدنے کی توفیق میسّر نہیں اب تک اسی قسم کی دوا ؤںمیں ہی شفا کےوسیلے تلاشا کرتا ہے۔
اُس بچے کی آنکھوں کی گہری اُداسی نہ جانے کیوں مجھے بہت اُداس کئے دے رہی تھی اور مجھےرہ رہ کر ملک کے اربابِ اختیار پر غصہ آرہا تھا کہ جن کی مفاد پرستی اور حوس نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں ، "یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے اور امیر ! امیر اپنے پیسے کے بل بوتے پر جو چاہے کرتا رہے" کرب کی ایک لہر میرے اندر تک سرایت کرگئی۔
"یہ ملک صرف دولت مند طبقے کے لئے ہے اور غریب آدمی یہاں سسک سسک کے مرنے کے لئے ہے ، پیسہ ہو تو ایک سے ایک معالج اور اعلٰی سے اعلیٰ علاج میسّر ہے پیسہ نہ ہو تو کوئی آپ کو پوچھنے والا تک نہیں، غریب جیے یا مرے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں" سوچ سوچ کر میرا دل جل رہا تھا۔
پھر مجھے سرکاری ہسپتالوں کا حال یاد آیا جہاں اچھی دوائیں تو ڈسپنسری میں آنے سے پہلے ہی بک جایا کرتی ہیں اور جعلی دواؤں سے غریبوں کو بہلا دیا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں جانے سے کتراتے ہیں اورانجانے میں معمولی امراض کو دائمی بنا لیتے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں اور اُن میں قابض لالچی بھیڑیوں کو اگر کسی بات سے دلچسپی ہے تو وہ صرف اُن کی اپنی ذات اور اور ذاتی مفاد ہے اُنہیں کسی اور بات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ پھرایسے میں کوئی عام آدمی سوائے کُڑھنے کے اور کربھی کیا سکتا ہے، مجھے اپنی بے بسی کااحساس ہونےلگا۔
بس آدھے سےزیادہ سفر طے کرچکی تھی کہ اچانک ڈرایئور نے بس کوسڑک کے ایک طرف کرکے روک دیا، میں اپنے خیالات سے چونکا تو پتہ چلا کہ بس کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور ڈرایئور اُسےاس جگہ جو نسبتاً کم رونق والی تھی، تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ مُسافر ڈرائیور کو بُرا بھلا کہتے ہوئے بس سے اُتر رہے تھے ، میں بھی نیچے اُتر آیا اور لبِ سڑک ایستادہ پان کی کیبن سے پان بنوانے لگااور ساتھ ساتھ ٹائر کی تبدیلی کا منظر بھی دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نظر اُس بچے اور اُس کے باپ پر پڑی جو شاید کمر سیدھی کرنے کے لئے بس سے اُتر آئے تھے۔ پان منہ میں رکھ کر میں پھر سے بچے کی جانب دیکھنے لگا، سُرخ رنگ کا محلول اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھا ، یکایک اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور جیب سے ایک چمچہ نما تار نکالا تار کے ایک سرے پر گھیرے دار اسپرنگ سے چمچہ نما حلقہ بنا ہوا تھا، اس دوران وہ سُرخ محلول کی تھیلی کھول چکا تھااب اُس نے چمچہ نما تار دوا کی تھیلی میں ڈالا اور پھر اُسے اپنے منہ کی طرف لا کر ہلکی سی پھونک ماری۔ فضا میں چاروں طرف بہت ہی خوشنما بُلبُلے رقص کررہے تھے اور بچے کی آنکھوں میں قوس وقزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اور اُس زردی کا وجود کہیں بھی نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے میری توجہ کا مرکز تھی۔ بچے کی خوشی دیدنی تھی ۔ایک بہت ہی خوش کُن مُسکراہٹ میرے لبو ں پر بھی مچل رہی تھی اور میں بہت خوش دلی سے بچے کی طر ف دیکھ رہا تھا اورہاں ابھی تو مجھےخود پر بھی بہت دیر ہنسنا تھا۔
از محمد احمد
یہ محض اتفاق ہی تھا کہ بس میں رش نہیں تھا ورنہ کراچی جیسے شہر میں اگر بس کے پائیدان پر بھی آپ کو جگہ مل جائے تواسے بڑی خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید دوپہر کے ساڑھے تین سے چار بجے کا وقت ہوگا عموماً اس وقت تک ٹریفک کا زیادہ بہاؤ رہائشی علاقوں سے تجارتی مراکز کی جانب ہوتا ہے اور شام میں یہ صورتِ حال بالکل برعکس ہوتی ہے غالباً یہی وجہ تھی کہ مجھے بس میں با آسانی نشست مل گئی تھی۔ دراصل آج شام کو ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی جس کے لئے کچھ تیاری میری لاپرواہی کے نتیجے میں آخری دن تک چلی آئی تھی اسی لئے آج میں خلافِ معمول جلد ہی دفتر سے نکل آیا تھا ۔ اگر تقریب میں شرکت ضروری نہ ہوتی تو شاید یہی بات میرے لئے تقریب سے کنارہ کشی کا ایک اچھا بہانہ بھی بن سکتی تھی لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں نبھانا ہی پڑتا ہے۔
بس سست رفتاری سے چل رہی تھی اورلوگ ذرا ذرا سے فاصلے پر بس میں سے چڑھ اور اُتر رہے تھے۔ بس میں دو رویہ نشستوں کا انتظام تھا۔ بیچ میں راہداری تھی جو رش کے اوقات میں مسافروں کے کھڑے ہونے کے کام آتی تھی۔ میں اپنے خیالات اور راستے کے مناظر کے مابین کہیں گم تھا کہ میری نشست کے متوازی نشست کے دونوں مُسافر ایک ساتھ اُتر گئے خیال آیا کہ کیوں نہ اس نشست پر پہنچ جاؤں،اِن بسوں کی اکثر نشستیں تکلیف دہ ہی ہوا کرتی ہیں اسی خیال سے مسافر خالی ہونے والی نشستو ں پر منتقل ہوتے رہتے ہیں کہ شاید اگلی نشست کچھ آرام دہ یا بہتر ہو۔ عموماً یہ بات تھکے ماندے مُسافروں کی خام خیالی ہی ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائےکہ اُمیدوں کا سہارا نہ ہو تو سفر اور بھی دشوار ہو جاتا ہے، بہرکیف اس دفعہ بھی میں نے سوچنے میں بہت دیر لگا دی اور پچھلی نشست سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص ا س نشست پر آکر براجمان ہوگیا اُس کے ساتھ ایک دس بارہ سالہ لڑکا بھی تھا یہ اتفاق ہی تھا کہ ادھیڑ عمر شخص جو شاید لڑکے کا باپ تھا کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا اور لڑکے نے بغیرکسی احتجاج کے کھڑکی کی دوسری طرف والی نشست سنبھال لی تھی ورنہ اکثر اوقات بچے کھڑی کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔
میں بے خیالی میں لڑکے کا جائزہ لینے لگا ۔ وہ ملگجے سے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا جو کثرتِ استمال کے باعث اپنی اصلی رنگت اور پہچان کھو چکے تھے اوراپنی خستہ حالی کی زبانی غربت اور افلاس کی کی کہانی سنا رہے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں وہ بے حد بہت ملول اور اُداس نظر آیا، آنکھوں میں زردیاں سمیٹے وہ اپنے دھیان میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا، پھر میری نظر اُس کے ہاتھ پر پڑی ۔اس کے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی شفاف تھیلی تھی جس میں سُرخ رنگ کا محلول نظر آرہا تھا ۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکا بیمار تھا اور کسی سرکاری ڈسپنسری سے دوا کے نام پر سُرخ رنگ کا مکسچر لے کر آیا تھااُس کی آنکھوں کی گرد پڑے گہرے حلقے میری بات کی تصدیق کررہے تھے۔
مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب اسی قسم کی دوا کے حصول کے لئے لوگ گھر وں سے استعمال شدہ بوتلیں لے کر جاتے تھے اوراُن میں سرکاری دوا خانوں سے اسی قسم کا سُرخ مکسچر لے آتے تھے پھر پلاسٹک کی تھیلیوں نے گھر سے بوتل لے جانے کا ٹنٹا تو ختم کردیالیکن سرخ رنگ کا یہ مکسچر کسی نہ کسی شکل میں اب تک سرکاری اور نچلے درجے کے ہسپتالوں کی روایت کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اُس زمانے میں صرف یہ سُرخ دوا ہی مریض کو صحتیابی کا راستہ دکھا دیتی تھی لیکن اب اس کی افادیت برائے نام ہی رہ گئی ہے بیشتر لوگ تو اسے پینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھربھی غریب طبقہ جسے مہنگی دوائیں خریدنے کی توفیق میسّر نہیں اب تک اسی قسم کی دوا ؤںمیں ہی شفا کےوسیلے تلاشا کرتا ہے۔
اُس بچے کی آنکھوں کی گہری اُداسی نہ جانے کیوں مجھے بہت اُداس کئے دے رہی تھی اور مجھےرہ رہ کر ملک کے اربابِ اختیار پر غصہ آرہا تھا کہ جن کی مفاد پرستی اور حوس نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں ، "یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے اور امیر ! امیر اپنے پیسے کے بل بوتے پر جو چاہے کرتا رہے" کرب کی ایک لہر میرے اندر تک سرایت کرگئی۔
"یہ ملک صرف دولت مند طبقے کے لئے ہے اور غریب آدمی یہاں سسک سسک کے مرنے کے لئے ہے ، پیسہ ہو تو ایک سے ایک معالج اور اعلٰی سے اعلیٰ علاج میسّر ہے پیسہ نہ ہو تو کوئی آپ کو پوچھنے والا تک نہیں، غریب جیے یا مرے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں" سوچ سوچ کر میرا دل جل رہا تھا۔
پھر مجھے سرکاری ہسپتالوں کا حال یاد آیا جہاں اچھی دوائیں تو ڈسپنسری میں آنے سے پہلے ہی بک جایا کرتی ہیں اور جعلی دواؤں سے غریبوں کو بہلا دیا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں جانے سے کتراتے ہیں اورانجانے میں معمولی امراض کو دائمی بنا لیتے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں اور اُن میں قابض لالچی بھیڑیوں کو اگر کسی بات سے دلچسپی ہے تو وہ صرف اُن کی اپنی ذات اور اور ذاتی مفاد ہے اُنہیں کسی اور بات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ پھرایسے میں کوئی عام آدمی سوائے کُڑھنے کے اور کربھی کیا سکتا ہے، مجھے اپنی بے بسی کااحساس ہونےلگا۔
بس آدھے سےزیادہ سفر طے کرچکی تھی کہ اچانک ڈرایئور نے بس کوسڑک کے ایک طرف کرکے روک دیا، میں اپنے خیالات سے چونکا تو پتہ چلا کہ بس کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور ڈرایئور اُسےاس جگہ جو نسبتاً کم رونق والی تھی، تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ مُسافر ڈرائیور کو بُرا بھلا کہتے ہوئے بس سے اُتر رہے تھے ، میں بھی نیچے اُتر آیا اور لبِ سڑک ایستادہ پان کی کیبن سے پان بنوانے لگااور ساتھ ساتھ ٹائر کی تبدیلی کا منظر بھی دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نظر اُس بچے اور اُس کے باپ پر پڑی جو شاید کمر سیدھی کرنے کے لئے بس سے اُتر آئے تھے۔ پان منہ میں رکھ کر میں پھر سے بچے کی جانب دیکھنے لگا، سُرخ رنگ کا محلول اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھا ، یکایک اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور جیب سے ایک چمچہ نما تار نکالا تار کے ایک سرے پر گھیرے دار اسپرنگ سے چمچہ نما حلقہ بنا ہوا تھا، اس دوران وہ سُرخ محلول کی تھیلی کھول چکا تھااب اُس نے چمچہ نما تار دوا کی تھیلی میں ڈالا اور پھر اُسے اپنے منہ کی طرف لا کر ہلکی سی پھونک ماری۔ فضا میں چاروں طرف بہت ہی خوشنما بُلبُلے رقص کررہے تھے اور بچے کی آنکھوں میں قوس وقزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اور اُس زردی کا وجود کہیں بھی نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے میری توجہ کا مرکز تھی۔ بچے کی خوشی دیدنی تھی ۔ایک بہت ہی خوش کُن مُسکراہٹ میرے لبو ں پر بھی مچل رہی تھی اور میں بہت خوش دلی سے بچے کی طر ف دیکھ رہا تھا اورہاں ابھی تو مجھےخود پر بھی بہت دیر ہنسنا تھا۔