محمداحمد
لائبریرین
ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی
زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی
ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی، لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی
کس کو معلوم تھا دن یہ بھی آئیں گے، موسموں کی طرح دل بدل جائیں گے
دن ہوا اجنبی، رات بھی اجنبی، ہر گھڑی، ہر پہر اجنبی اجنبی