ہمسفر

فرذوق احمد

محفلین
السلام علیکم سب بھائیوں کو یہ نظم میں نے پہلی بار لکھی تھی مگر میں کسی کو سُنا نہیں پا یا مجھے امید ہیں کے آپ سب اس نظم کو پڑھے گے ،اور جو غلطیاں ہو گی اسے بھی ٹھیک کار دے گے نظم کا عنوان ہیں

ہمسفر

میں یہ نہیں جانتا تھا کہ وقت سب کو راہ دکھاتا ہیں
میں تو انجانے راستوں سے گزرتا جا رہا تھا
نہ کوئی خوف تھا نہ کوئی ڈر تھا
میری پستیوں پہ کئی ہستیوں کا راج تھا
مگر دل کو سمجھا کے قدم جما کے میں چلتا جا رہا تھا
میں اپنے رسوا دشمن کے سامنے مجبور تھا
مگر بے بس نہ تھا
ُاسکا مجھ پر پوری طرح قابو تھا
مگر کب تک
مجھے تو منزل تک جانا تھا اور چلتے جانا تھا
میں نے ُسنا تھا کے راستے کبھی رائیگاں نہیں جاتے
وہ کہی نہ کہی تو پہنچا ہی دیتے ہیں
لیکین یہ سفر کیسا تھا
جس میں کوئی ہمسفر نہ تھا
صرف میں تھا اور میرا رسوا دشمن تھا
ُاسکو میں مارنا چاہتا تھا
مگر کیسے؟ کس ھتیار سے ؟
کچھ بھی تو نہ تھا میرے پاس
بس ایک امید ایک خواہش
یہ خواہش میرے دل میں تھی میری روح‌میں تھی
شاید اس کے بغیر میں زندہ نہ رہ پاتا
منزل کی تلاش میرا مقصد بن چکی تھی
مگر یہ جنون دیوانگی سب کچھ ہونے کے باوجود بھی
میں کچھ نہیں کر پا رہا تھا
یا شاید،،،،،،،،،،،
کسی بھی سفر کے لیے ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہیں
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
مجھے امید ہیں کے آپ سب کو پسند آئے گی اور اگر نہ بھی تو پلیز بتانا ضرور ہیں آپ لوگوں نے
 

فرذوق احمد

محفلین
ارے یہ کیا فرزوق بچے روتے کیوں ہو ۔کیا ہوا اگر تمہاری نظم کسی نے نہیں پڑھی کوئی بات نہیں کوئی تو پڑھے گا ہی
 

الف عین

لائبریرین
جب تم کہہ ہرہے ہو کہ ’کچھ نہ کہو‘۔ اس لئے سب لوگ خاموش بیٹھے ہیں شاید۔ میں ہی شروع کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ بھئی ہم تو نرے شاعر آدمی ہے یا سائنس داں، اس لئے تصوف کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔ تمھاری نثری نظم ویسے اچھی ہی ہے، اور نثری نظم میں میرے خیال میں اصلاح کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
 

فرذوق احمد

محفلین
السلام علیکم
سر بہت بہت شکریہ پسند کرنے کا اگر آپ اس وجہ سے چپ ہیں کے میں لکھا ہیں کچھ نہ کہو تو سر میں ابھی ٹھیک کر دیتا ہو
 
Top