ہمٹی ڈمٹی کا گیت
از لوئیس کیرول
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن

سردی کے موسم میں جب کھیتوں پر کہرا چھاتا ہے
گیت تمہارے نام پہ لکھا شاعر نے اور گاتا ہے

جشنِ بہاراں میں جب سبزہ اپنی شان دکھائے گا
تب شاعر اس گیت کا مطلب تم کو بھی بتلائے گا

گرمی میں جب دن لمبے ہوجائیں گے، راتیں چھوٹی
تب اس گیت کا مطلب تم بھی سمجھ سکو گی او موٹی!

پت جھڑ میں جب پتے سوکھے اور پیلے ہوجائیں گے
لکھ لینا پھر معنی اس کے جو بھی سمجھ میں آئیں گے

دریا کی مچھلیوں کو میں نے اک دن یونہی خط لکھا
میں نے ان کو جتادیا پھر جو بھی میرا مطلب تھا

دریا کی مچھلیوں نے مجھ کو بھی اک دن یه خط لکھا
جس میں انہوں نے لکھ کر بھیجا جو بھی ان کا مطلب تھا

ایک سطر کے خط میں آئیں فوراً ہی وہ مطلب پہ
لکھا ہم یه کر نہیں سکتیں، ہرگز یعنی ہم کیونکہ۔۔

اپنے خط میں میں نے پھر ان کو بھی دے دی اک دھمکی
بہتر ہوگا میرا حکم بجا لاؤ تم فوراً ہی

ہنس کر اپنے خط میں لکھا غصے میں لگتے ہیں آپ
تھوک دیں اپنا غصہ اور نہ لکھیں ایسی اناپ شناپ

میں نے ان کو منع کیا پر سب کچھ ہی بے کار گیا
ان لوگوں نے میرا کہنا پشت کے پیچھے ڈال دیا

تنگ آکر بازار سے میں اک کیٹل لے آیا جاکر
دل میں ٹھانی تھی میں نے اب یہی کروں گا بھنّاکر

دل میرا یوں دھک دھک دھک دھک، دھک دھک دھک دھک کرتا تھا
پمپ لگا کر اس کیٹل کو جب پانی سے بھرتا تھا

تب ہی کوئی دور سے میرے پاس آیا اور یوں بولا
سب بستر میں جا سوئی ہیں اور خالی ہے اب دریا

میں نے اس آنے والے کو ڈانٹ دیا اور یه بولا
جاکر اُن کو آپ جگاؤ، منہ کیا تکتے ہو میرا

میں نے اپنا مطلب اُس کو صاف الفاظ میں جتلایا
منہ اپنا میں اس کے کان کے سامنے لایا اور چیخا

کڑوا سا منہ بناکے اُس نے اِک لمبی سی آہ بھری
بولا اتنا چیخ کے تم کو کہنے کی حاجت کیا تھی

پیر پٹخ کر غصہ میں وہ بولا اب میں جاؤں کدھر
جاتا ہوں میں اُن کو اٹھانے، کوشش کرلوں، پھر بھی اگر۔۔

سامنے رکھے شیلف سے میں نے بھی اک سوّا اٹھا لیا
اور اُن ضدی لوگوں کو پھر آپ جگانے چلا گیا

جب میں اُن کے گھر پہنچا وہ تالا ڈالے سوتی تھیں
میری کوشش میری محنت سب ہی یوں بے کار گئیں

میں نے تو اس کام میں کرلی کوشش اپنی ہر ممکن
دروازے کے دستے پر سب جتن کیے میں نے لیکن۔۔

Humpty Dumpty's Song
In winter, when the fields are white,
I sing this song for your delight.

In Spring, when woods are getting green,
I'll try and tell you what I mean.

In Summer, when the days are long,
Perhaps you'll understand the song.

In Autumn, when the leaves are brown,
Take pen and ink, and write it down.

I sent a message to the fish:
I told them 'This is what I wish.'

The little fishes of the sea,
They sent an answer back to me.

The little fishes' answer was
'We cannot do it, Sir, because-'

I sent to them again to say
'It will be better to obey.'

The fishes answered, with a grin,
'Why, what a temper you are in!'

I told them once, I told them twice:
They would not listen to advice.

I took a kettle large and new,
Fit for the deed I had to do.

My heart went hop, my heart went thump:
I filled the kettle at the pump.

Then someone came to me and said
'The little fishes are in bed.'

I said to him, I said it plain,
'Then you must wake them up again.'

I said it very loud and clear:
I went and shouted in his ear.

But he was very stiff and proud:
He said 'You needn't shout so loud!'

And he was very proud and stiff:
He said 'I'd go and wake them, if-'

I took a corkscrew from the shelf:
I went to wake them up myself.

And when I found the door was locked,
I pulled and pushed and kicked and knocked.

And when I found the door was shut,
I tried to turn the handle, but-
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی ! اچھا ترجمہ ہے ۔ آپ کی محنت صاف عیاں ہے ۔ بہت داد!
ایک دو نکتے جو نظم پڑھتے کے ساتھ ہی فوراً ذہن میں آتے ہیں وہ عرض کرنا چاہوں گا ۔ شاید آپ کے لئے مددگار ثابت ہوں ۔ ایک تو یہ کہ فدوی کا ستعمال اچھا نہیں لگ رہا ۔ اس لفظ کا مفہوم یعنی کنوٹیشن نظم کے ماحول میں فٹ نہیں بیٹھ رہا ۔ اس کی جگہ "میں" یا" شاعر" یا کچھ اور ہونا چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ اصل نظم میں کیٹل سے مراد Cauldron ہے یعنی بڑی سی دیگ وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ نظم میں کیٹل کا آئیڈیا لانے سے شاید Kettle of fish کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اس انگریزی محاورے اور خیال کا کماحقہ ترجمہ اردو میں شاید ممکن نہ ہوسکے۔ اس کے متبادل پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
 
بہت خوب خلیل بھائی ! اچھا ترجمہ ہے ۔ آپ کی محنت صاف عیاں ہے ۔ بہت داد!
ایک دو نکتے جو نظم پڑھتے کے ساتھ ہی فوراً ذہن میں آتے ہیں وہ عرض کرنا چاہوں گا ۔ شاید آپ کے لئے مددگار ثابت ہوں ۔ ایک تو یہ کہ فدوی کا ستعمال اچھا نہیں لگ رہا ۔ اس لفظ کا مفہوم یعنی کنوٹیشن نظم کے ماحول میں فٹ نہیں بیٹھ رہا ۔ اس کی جگہ "میں" یا" شاعر" یا کچھ اور ہونا چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ اصل نظم میں کیٹل سے مراد Cauldron ہے یعنی بڑی سی دیگ وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ نظم میں کیٹل کا آئیڈیا لانے سے شاید Kettle of fish کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اس انگریزی محاورے اور خیال کا کماحقہ ترجمہ اردو میں شاید ممکن نہ ہوسکے۔ اس کے متبادل پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
خوبصورت خوبصورت! فدوی کی جگہ شاعر تو کچھ اتنا فٹ ہے یقین نہیں آرہا۔ اسے تو ابھی اصل متن میں ہی تبدیل کیے دیتے ہیں۔ البتہ کیٹل کے شعر میں شاید تنگ کا تلفظ بھی غلط ہے۔ اس شعر کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
تنگ آکر بازار سے میں اک کیٹل لے آیا جاکر
دل میں ٹھانی تھی میں نے اب یہی کروں گا بھنّاکر

دل میرا یوں دھک دھک دھک دھک، دھک دھک دھک دھک کرتا تھا
پمپ لگا کر اس کیٹل کو جب پانی سے بھرتا تھا
مندرجہ بالا اشعار کے متبادل یہ کیسے رہیں گے؟

زِچ ہوکر بازار سے میں اک دیگ لے آیا تھا جاکر​
دل میں ٹھانی تھی میں نے اب یہی کروں گا بھنّاکر

دل میرا یوں دھک دھک دھک دھک، دھک دھک دھک دھک کرتا تھا
پمپ لگا کر میں اِس دیگ کو جب پانی سے بھرتا تھا​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مندرجہ بالا اشعار کے متبادل یہ کیسے رہیں گے؟

زِچ ہوکر بازار سے میں اک دیگ لے آیا تھا جاکر​
دل میں ٹھانی تھی میں نے اب یہی کروں گا بھنّاکر

دل میرا یوں دھک دھک دھک دھک، دھک دھک دھک دھک کرتا تھا
پمپ لگا کر میں اِس دیگ کو جب پانی سے بھرتا تھا​

خلیل بھائی ، ایک تو کسی طرح سے اس دھک دھک کو ذرا کم کرسکیں تو میری رائے میں اور بہتر ہوجائے گا ۔ دل میرا یوں شدت سے سینے میں دھک دھک کرتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ یا اسی قسم کی کوئی اور بات۔
دوسری بات یہ کہ دوسرے مصرع میں " پمپ لگا کر" نہیں بلکہ" پمپ پہ جاکر" ہونا چاہئے ۔
My heart went hop, my heart went thump
I filled the kettle at the pump​
یہاں پمپ سے مراد ہینڈپمپ والا نلکا ہے جو پرانے زمانے میں ہوا کرتا تھا جس کے نیچے برتن وغیرہ رکھ کر پانی بھرا کرتے تھے ۔ بجلی کے پمپ وغیرہ لوئیس کیرول کے زمانے میں ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے ۔
 
خلیل بھائی ، ایک تو کسی طرح سے اس دھک دھک کو ذرا کم کرسکیں تو میری رائے میں اور بہتر ہوجائے گا ۔ دل میرا یوں شدت سے سینے میں دھک دھک کرتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ یا اسی قسم کی کوئی اور بات۔
دوسری بات یہ کہ دوسرے مصرع میں " پمپ لگا کر" نہیں بلکہ" پمپ پہ جاکر" ہونا چاہئے ۔
My heart went hop, my heart went thump
I filled the kettle at the pump
یہاں پمپ سے مراد ہینڈپمپ والا نلکا ہے جو پرانے زمانے میں ہوا کرتا تھا جس کے نیچے برتن وغیرہ رکھ کر پانی بھرا کرتے تھے ۔ بجلی کے پمپ وغیرہ لوئیس کیرول کے زمانے میں ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے ۔

جزاک اللہ ظہیر بھائی!

تو گویا فائینل صورت یہ بنی


ہمٹی ڈمٹی کا گیت
از لوئیس کیرول
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن

سردی کے موسم میں جب کھیتوں پر کہرا چھاتا ہے
گیت تمہارے نام پہ لکھا شاعر نے اور گاتا ہے

جشنِ بہاراں میں جب سبزہ اپنی شان دکھائے گا
تب شاعر اس گیت کا مطلب تم کو بھی بتلائے گا

گرمی میں جب دن لمبے ہوجائیں گے، راتیں چھوٹی
تب اس گیت کا مطلب تم بھی سمجھ سکو گی او موٹی!

پت جھڑ میں جب پتے سوکھے اور پیلے ہوجائیں گے
لکھ لینا پھر معنی اس کے جو بھی سمجھ میں آئیں گے

دریا کی مچھلیوں کو میں نے اک دن یونہی خط لکھا
میں نے ان کو جتادیا پھر جو بھی میرا مطلب تھا

دریا کی مچھلیوں نے مجھ کو بھی اک دن یه خط لکھا
جس میں انہوں نے لکھ کر بھیجا جو بھی ان کا مطلب تھا

ایک سطر کے خط میں آئیں فوراً ہی وہ مطلب پہ
لکھا ہم یه کر نہیں سکتیں، ہرگز یعنی ہم کیونکہ۔۔

اپنے خط میں میں نے پھر ان کو بھی دے دی اک دھمکی
بہتر ہوگا میرا حکم بجا لاؤ تم فوراً ہی

ہنس کر اپنے خط میں لکھا غصے میں لگتے ہیں آپ
تھوک دیں اپنا غصہ اور نہ لکھیں ایسی اناپ شناپ

میں نے ان کو منع کیا پر سب کچھ ہی بے کار گیا
ان لوگوں نے میرا کہنا پشت کے پیچھے ڈال دیا

زِچ ہوکر بازار سے میں اک دیگ لے آیا تھا جاکر
دل میں ٹھانی تھی میں نے اب یہی کروں گا بھنّاکر

دل میرا یوں شدت سے سینے میں دھک دھک کرتا تھا
پمپ پہ جا کر میں اِس دیگ کو جب پانی سے بھرتا تھا

تب ہی کوئی دور سے میرے پاس آیا اور یوں بولا
سب بستر میں جا سوئی ہیں اور خالی ہے اب دریا

میں نے اس آنے والے کو ڈانٹ دیا اور یه بولا
جاکر اُن کو آپ جگاؤ، منہ کیا تکتے ہو میرا

میں نے اپنا مطلب اُس کو صاف الفاظ میں جتلایا
منہ اپنا میں اس کے کان کے سامنے لایا اور چیخا

کڑوا سا منہ بناکے اُس نے اِک لمبی سی آہ بھری
بولا اتنا چیخ کے تم کو کہنے کی حاجت کیا تھی

پیر پٹخ کر غصہ میں وہ بولا اب میں جاؤں کدھر
جاتا ہوں میں اُن کو اٹھانے، کوشش کرلوں، پھر بھی اگر۔۔

سامنے رکھے شیلف سے میں نے بھی اک سوّا اٹھا لیا
اور اُن ضدی لوگوں کو پھر آپ جگانے چلا گیا

جب میں اُن کے گھر پہنچا وہ تالا ڈالے سوتی تھیں
میری کوشش میری محنت سب ہی یوں بے کار گئیں

میں نے تو اس کام میں کرلی کوشش اپنی ہر ممکن
دروازے کے دستے پر سب جتن کیے میں نے لیکن۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جزاک اللہ ظہیر بھائی!
تو گویا فائینل صورت یہ بنی

خلیل بھائی ، سچی بات تو یہ ہے کہ ترجمہ تو ٹھیک ہوگیا لیکن ترجمانی کا حق ادا نہیں ہوا ۔ :):):)آپ تو جانتے ہی ہیں کہ شاعری کو ایک زبان سے دوسری میں محض ترجمے کی مدد سے کماحقہ منتقل کرنا ممکن نہیں ۔ شعر کا مطلب تو منتقل ہوجاتا ہے لیکن قاری کو شاعری کی اصل روح اور لطیف سطح تک پہنچانے کے لئے ترجمے سے زیادہ ترجمانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس میں لفظی ترجمہ تو منظوم ہوگیا ہے لیکن نہ تو اس میں گیت کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی اسے پڑھتے ہوئے اردو شاعری کا سا لطف آ رہا ہے ۔ اس نظم کو " اُردوانے " کی ضرورت ہے یعنی الفاظ اور اسلوب کو اردو شاعری کے قالب میں ڈھالئے ۔ اگر اردو کا رنگ ملانے کے لئے اصل نظم سے ذرا اِدھر اُدھر بھی ہونا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ آخر شاعری ہی ہے ۔ :)
ایک تجویز یہ ہے کہ اگر اس کا وزن فعلن ساڑھےسات بار کے بجائے چھ بار رکھیں تو کچھ حشو و زوائد سے بھی نجات مل جائے گی اور روانی میں خاصی بہتری آئے گی ۔ اگر آپ اجازت دیں گے تو میں چند اشعار پر بطور نمونہ و رہنمائی اپنی تجاویز پیش کردوں گا ۔ :):):)
 
جزاک اللہ ظہیر بھائی۔ آپ کامشورہ پڑھتے ہی چھوٹی بحر میں لکھنے کی کوشش کرڈالی ہے۔ پڑھ کر اپنی را ئے سے ضرور نوازئیے۔

سردی میں کھیتوں پر کہرا چھائے گا
گیت لکھے گا شاعر اور یوں گائے گا

گلشن میں جب سبزہ شان دکھائے گا
تب شاعر مطلب اس کا سمجھائے گا

گرمی کے دن لمبے اور راتیں چھوٹی
تب اس کا تم مطلب سمجھو گی موٹی

پت جھڑ میں جب پتے سب جھڑ جائیں گے
لکھ لینا جو معنی سمجھ میں آئیں گے

دریا کی مچھلیوں کو میں نے خط لکھا
میں نے ان کو جتا دیا جو مطلب تھا

ان لوگوں کا تب مجھ کو یوں خط آیا
خط میں مجھ کو لکھ بھیجا جو مطلب تھا

ایسے اپنے خط میں آئیں مطلب پہ
لکھا یه تو کر نہیں سکتیں ہم کیونکہ۔۔

اپنے خط میں میں نے دے دی اک دھمکی
بہتر ہوگا کہنا مانو فوراً ہی

ہنس کر بولیں غصے میں لگتے ہیں آپ
تھوک دیں غصہ اور نہ لکھیں اناپ شناپ

ان سب نے پھر ہنس کر مجھ کو ٹال دیا
میرا کہنا پشت کے پیچھے ڈال دیا

تب اک دیگ بھی میں لے آیا تھا جاکر
دل میں ٹھانی تھی میں نے کچھ بھنا کر

دل میرا یوں زور سے دھک دھک کرتا تھا
پمپ پہ جاکر جب میں دیگ کو بھرتا تھا

تب کوئی میرے پاس آیا اور یوں بولا
سب جا سوئی ہیں اور خالی ہے دریا

میں نے اس کو ڈانٹ دیا اور یوں بولا
ان کو جگاؤ منہ کیا تکتے ہو میرا

میں نے اپنا مطلب اس کو جتلایا
اس کے کان پہ منہ رکھا اور میں چیخا

کڑوا سا منہ بناکے اس نے آہ بھری
بولا چیخ کے کہنے کی حاجت کیا تھی

پیر پٹخ کر پھر بولا اب جاؤں کدھر
ان کو اٹھانے جاتا ہوں میں پھر بھی اگر۔۔

میں نے شیلف سے اک سوا بھی اٹھالیا
اور ان کو یوں آپ جگانے چلاگیا

جب میں ان کے گھر پہنچا وہ سوتی تھیں
میری کوشش اور محنت بے کار گئیں

میں نے اپنی کوشش کرلی ہر ممکن
دروازے پر محنت کی میں نے لیکن۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ! بدرجہا بہتر ہو گئی ہے خلیل بھائی ! بہت اچھے!
ماشاء اللہ آپ نے اتنی جلدی اتنی اچھی اصلاحات کرڈالیں ۔ آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کو بہت سی داد پہنچے!
 
بہت خوب ! بدرجہا بہتر ہو گئی ہے خلیل بھائی ! بہت اچھے!
ماشاء اللہ آپ نے اتنی جلدی اتنی اچھی اصلاحات کرڈالیں ۔ آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کو بہت سی داد پہنچے!
جزاک اللہ ظہیر بھائی! آپ اور دیگر محفلین خاص طور پر سید عاطف علی بھائی اور استادِ محترم الف عین صاحب کی تعریف و تنقید ساتھ نہ ہو تو ہم جیسے متشاعروں کی اصلاح ناممکن ہے۔ خوش رہیے اور اپنی تعریف کے ڈونگرے اور بے لاگ تنقید جاری رکھیے تاکہ ہمارا سیکھنے کا عمل جاری رہے۔
 
آخری تدوین:
Top