بیٹھا تھا دیوار پہ اِک دِن انڈے جیسا ہمٹی ڈمٹی
دھڑ سے گِرا دیوار سے جب وہ، نکلی اُس کی زردی ساری
شاہ کے سارے گھوڑے آئے، اس کے سارے آدمی آئے
جوڑ سکے نہ اُس کے تن کو ، کوشش جیسی بھی کرپائے
نوٹ: سید عاطف علی بھائی کے خصوصی شکرئیے کے ساتھ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ! کیا بات ہے! بہت خوب خلیل بھائی!
نظم بھی اچھی منتخب کی ہے اور ترجمہ بھی بہت خوب کیا ہے!
البتہ زمرے کی مناسبت سے آپ کی فراخ دل توجہ ایک دو نکات کی طرف لانا چاہوں گا ۔ اول یہ کہ میری ناقص رائے میں "نکلی اس کی ساری زردی" نہ صرف غیر شاعرانہ ہے بلکہ ہمٹی ڈمٹی کے معانی کو بھی محض انڈے کی حدتک محدودکررہا ہے ۔ جبکہ عرف عام میں ہمٹی ڈمٹی کسی گول مٹول ، گول گپا سے کردار کو بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس سے محض انڈہ ہی مراد نہیں ہوتا ۔ دوسری بات یہ کہ "شاہ کے سارےآدمی" بچوں کی نظم میں اتنا منا سب نہیں لگتا ۔ اردو کہانیوں کی رعایت اور روایت کی رو سے بادشاہ کے خادم ، سپاہی یا نوکر چاکر وغیرہ کہنا زیادہ جچےگا۔ کچھ تبدیلیاں تجویز کرتا ہوں ۔ دیکھ لیجئے شاید آپ کو مناسب لگیں ۔
بیٹھا تھا دیوار پرا ک دن ، انڈے جیسا ہمٹی ڈمٹی
دھڑ سے گرا دیوار سے نیچے ، ایک ہوئی سب ہڈی پسلی
شاہ کے سارے گھوڑے آئے ، نوکر چاکر دوڑے آئے
ہر کوئی کوشش کرکر ہارا ، جوڑ نہ پائے اُس کو دوبارہ

خلیل بھائی ، ایک اور چھوٹی سی تجویز یہ ہے کہ اس نظم کے ہرمصرع کوآدھا آدھا کرکے دو مصرعوں میں توڑدیجئے ۔ بچوں کی نظم نہ صرف یہ کہ چھوٹی بحر میں زیادہ رواں اور خوبصورت لگتی ہے بلکہ یادکرنے اورکروانے میں بھی آسان ہوتی ہے ۔ یعنی:
بیٹھا تھا دیوار پر اک دن
انڈے جیسا ہمٹی ڈمٹی
دھڑ سے گرا دیوار سے نیچے
۔۔۔۔۔۔ الخ

میرا دل کہتا ہے کہ آپ کی یہ نظم ان شاء اللہ قبولِ عام پائے گی ۔
 
تو گویا یہ صورت بنی

ہمٹی ڈمٹی
محمد خلیل الرحمٰن

بیٹھا تھا دیوار پرا ک دن
انڈے جیسا ہمٹی ڈمٹی
دھڑ سے گرا دیوار سے نیچے
ایک ہوئی سب ہڈی پسلی
شاہ کے سارے گھوڑے آئے
نوکر چاکر دوڑے آئے
ہر کوئی کوشش کرکر ہارا
جوڑ نہ پائے اُس کو دوبارہ​
 

شکیب

محفلین
واہ اب تو بہت ہی مزیدار ہو گئی۔ ہمیں بھی بچوں کی طرح گلاٹیاں کھانے کا من کر رہا ہے۔
ویسے احباب پر لازم ہے کہ اس نظم کو بغیر گردن کو جھٹکے دیے ہرگز نہ پڑھیں۔
 
Top