ہمہ اوست - برق دہلوی

حسان خان

لائبریرین
وہی شعلۂ سرِ طور ہے، وہی برقِ حسنِ نگار ہے
وہی ایک جلوۂ یار ہے، وہی نور ہے وہی نار ہے

وہی جلوہ ریز حرم میں ہے، وہی نور بیت الصنم میں ہے
وہی تم میں ہے، وہی ہم میں ہے، وہی سب کا دار و مدار ہے

وہی رندِ جام بدست ہے، وہی مستِ روزِ الست ہے
وہی کیفِ بادۂ ہست ہے، وہی اس نشے کا خمار ہے

وہی ضو فروزِ حیات ہے، وہی عکس ریزِ صفات ہے
وہی نورِ جلوۂ ذات ہے، وہی ایک بر سرِ کار ہے

وہی جلوہ ہے، وہی جلوہ گر، وہی خود نما، وہی خود نِگر
وہی حسنِ ناز فروش ہے، وہی رخ پر اپنے نثار ہے

وہی حسن ہے، وہی عشق ہے، وہی ہے صفا، وہی صدق ہے
وہی تاب بخشِ جمالِ گل، وہی روحِ صورتِ ہزار ہے

وہی ہے فنا، وہی ہے بقا، وہی ابتدا، وہی انتہا
وہی جزو میں ہے، وہی کل میں ہے، وہی اصل و آخرِ کار ہے

وہی مہر ہے، وہی ماہ ہے، وہی برقِ چشمِ سیاہ ہے
وہی تابِ شعلہ، آہ ہے، وہی حسنِ روئے شرار ہے

(برق دہلوی)
منظومۂ جون ۱۹۲۲ء
 
Top