کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہمیشہ بات بڑھانے کی بات کرتے ہیں
ہیں کیسے اپنے، ستانے کی بات کرتے ہیں


وہ اپنی بات کہیں اور ہماری بات سنیں
نہ جانے کیوں وہ زمانے کی بات کرتے ہیں

مرے رقیب کی میرے ہی سامنے تعریف
وہ دل میں آگ لگانے کی بات کرتے ہیں

ہمیں نے زیست تمام انکے نام کرڈالی
ہمیں سے پیچھا چھڑانے کی بات کرتے ہیں

یہ کہہ کے جائیں کہ جلدی ہی لوٹ آئیں گے
وہ جاتے وقت نہ آنے کی بات کرتے ہیں


ہم ان سے بات چھپانے کی کرتے ہیں درخواست
وہ سب کو بات بتانے کی بات کرتے ہیں

انھیں پتہ ہی نہیں کیا ہے دولتِ ایقان
زمانے والے خزانے کی بات کرتے ہیں

شریف آپ ہیں بیحد بلا شبہ جاوید
ہمیشہ ہاتھ ملانے کی بات کرتے ہیں
 
Top