ناعمہ عزیز
لائبریرین
میٹرک تک زندگی صر ف انجوائے کا نام تھا۔ اس کے بعد جب لوگوں اور دنیا کو سمجھنا شروع کیا
زندگی الجھتی ہی چلی گئی، اپنوں سے بھی دور بیگانوں سے بھی کہیں اپنی الگ ہی دنیا بسا لی۔ہر کسی کو اس سے گلہ رہنے لگا اور اسے دنیا سے اور خود سے۔ برداشت کی حدیں ختم ہوتیں گیئں۔ اور وہ لڑکی جو ہر وقت ہنسا ہنسایا ہی کرتی تھی اپنے ہی اندر کہیں دفن ہوگئی۔
جینے کو آج بھی جیتی ہے آج بھی ہنستی ہے مگر کبھی کبھی جب اس کھوئی ہوئی لڑکی کو تلاش کرتی ہے تو ایک مردہ سا چہرہ نظر آتا ہے۔
مایوسی کی تمام حدیں طے کر کے صرف زندگی کو ختم کرنے کا خیال آتا ہے ۔ جینے کا کوئی آسرا کوئی سہارا نظر نہیں آتا۔ اپنی ذات بہت بے وقعت سی لگتی ہے۔ ہر روز کچھ نا کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ کوئی مجھے یہ احساس دلا سکے کہ میں جینا کتنا بے معنی ہے۔ پھر وہ میں زندہ ہوں۔بارہا کوششیں کیں کہ مر جائے ’خس کم جہاں پاک‘ پر لگتا ہے اوپر والے کی لسٹ میں اس کی موت کا نمبر بہت دور درج ہے۔۔۔
ان سب سے دور ہو کر پھر وہ اپنے آپ کو جینے پہ مجبور کرتی ہے۔ ہر بار کوشش کرتی ہے کہ کسی کو شکایت کو موقع نا دے۔ مگر نا چاہ کر بھی کوئی ناکوئی غلطی کر بیٹھتی ہے۔ زندگی پھر غیر اہم ہو جاتی ہے۔ اپنی ہر ناکامی ہر مایوسی اپنے اندر چھپا کر پھر لوگوں کے اور اپنوں
طنز کو برداشت کرکے جینا کیسا ہوتا ہے؟ انسان پہلے ہی ٹوٹا ہوا ہو اور کچھ دنیا ہی اسے برداشت نا کرے تو پھر وہ کیا کرے؟ اس منتشر دل و دماغ کت ساتھ یا تو وہ خود کشی کی کوششیں کر سکتا ہے یا ایسا در تلاش کر سکتا ہےجہاں اسے سکون مل سکے۔ اور وہ اپنے اند رکے دکھوں اور احساس کم تری کو کم کر سکے۔
مگر ایسی ما یوسیوں کے ساتھ جینے کو جینا تو نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی الجھتی ہی چلی گئی، اپنوں سے بھی دور بیگانوں سے بھی کہیں اپنی الگ ہی دنیا بسا لی۔ہر کسی کو اس سے گلہ رہنے لگا اور اسے دنیا سے اور خود سے۔ برداشت کی حدیں ختم ہوتیں گیئں۔ اور وہ لڑکی جو ہر وقت ہنسا ہنسایا ہی کرتی تھی اپنے ہی اندر کہیں دفن ہوگئی۔
جینے کو آج بھی جیتی ہے آج بھی ہنستی ہے مگر کبھی کبھی جب اس کھوئی ہوئی لڑکی کو تلاش کرتی ہے تو ایک مردہ سا چہرہ نظر آتا ہے۔
مایوسی کی تمام حدیں طے کر کے صرف زندگی کو ختم کرنے کا خیال آتا ہے ۔ جینے کا کوئی آسرا کوئی سہارا نظر نہیں آتا۔ اپنی ذات بہت بے وقعت سی لگتی ہے۔ ہر روز کچھ نا کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ کوئی مجھے یہ احساس دلا سکے کہ میں جینا کتنا بے معنی ہے۔ پھر وہ میں زندہ ہوں۔بارہا کوششیں کیں کہ مر جائے ’خس کم جہاں پاک‘ پر لگتا ہے اوپر والے کی لسٹ میں اس کی موت کا نمبر بہت دور درج ہے۔۔۔
ان سب سے دور ہو کر پھر وہ اپنے آپ کو جینے پہ مجبور کرتی ہے۔ ہر بار کوشش کرتی ہے کہ کسی کو شکایت کو موقع نا دے۔ مگر نا چاہ کر بھی کوئی ناکوئی غلطی کر بیٹھتی ہے۔ زندگی پھر غیر اہم ہو جاتی ہے۔ اپنی ہر ناکامی ہر مایوسی اپنے اندر چھپا کر پھر لوگوں کے اور اپنوں
طنز کو برداشت کرکے جینا کیسا ہوتا ہے؟ انسان پہلے ہی ٹوٹا ہوا ہو اور کچھ دنیا ہی اسے برداشت نا کرے تو پھر وہ کیا کرے؟ اس منتشر دل و دماغ کت ساتھ یا تو وہ خود کشی کی کوششیں کر سکتا ہے یا ایسا در تلاش کر سکتا ہےجہاں اسے سکون مل سکے۔ اور وہ اپنے اند رکے دکھوں اور احساس کم تری کو کم کر سکے۔
مگر ایسی ما یوسیوں کے ساتھ جینے کو جینا تو نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔