فرخ منظور
لائبریرین
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے
بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے
وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ
گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے
ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں
جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے
میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے
کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے
بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے
جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے
(ثاقب لکھنوی)
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے
بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے
وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ
گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے
ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں
جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے
میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے
کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے
بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے
جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے
(ثاقب لکھنوی)
آخری تدوین: