فارسی شاعری ہم آں داغے کہ بردل از تو دارم حرز جانم شد ۔ پطرس بخاری

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

ہم آں داغے کہ بردل از تو دارم حرز جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامندش سخنگو راز دارم شد

دلے بود و در آغوشم نگجنید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

بپرس اے داورِ محشر۔ چہ مے پرسی چہ می مپرسی
نگاہ حسرت آلایم کہ مے بینی بیانم شد

بگہ دزدیدہ افگندی بدل چوں راز جاں دارم
نظر کردی بہ بیباکی و فصل داستانم شد

دگرقدح جنوں در دہ کہ ہم در منزل اوّل
خیالِ و حشتم و امندو گردِ کار و انم شد

از پطرس بخاری مرحوم

ہزار داستان۔ ستمبر ۱۹۲۲ء

مرحوم کی یاد میں یہ غزل پوسٹ کر رہا ہوں۔ وارث صاحب سے گذارش ہے کہ اس غزل کا ترجمہ کردیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے! لیکن مشکل کام آپ نے کہہ دیا مجھ سے :)

خیر اول تو یہ کہ غزل گوگل کرتے ہوئے میں نے پطرس بخاری کی ویب سائٹ پر دیکھی ہے لیکن اس کے ٹائپسٹ اور پروف ریڈرز دونوں پر اعتماد تھوڑا سا متزلزل ہے، اگر آپ کے پاس کلیات پطرس ہوں تو ضرور دیکھیئے گا، شاید فاتح صاحب کے پاس بھی کلیاتِ پطرس ہیں وہ بھی اگر اس غزل کو دیکھ سکیں تو نوازش کہ مجھے کچھ املاء کی غلطیاں لگ رہی ہیں اور چونکہ فارسی پر دسترس تو درکنار، شد بد بھی نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ میں ہی غلطی کر رہا ہوں۔ بہرحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد

وہ داغ بھی جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے میں نے انہیں بہت احتیاط سے (چھپا چھپا کر) رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)!


دلے بود و در آغوشم نگجنید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

"گجنید" مجھے کوئی لفظ نہیں ملا (میری کم علمی)، لیکن ہو سکتا ہے کہ ٹائپو ہو اور اسکی جگہ لفظ "گنجید" ہو گنجیدن سے بمعنی سمانا۔

دلے بُود و در آغوشَم نگنجید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

دل تھا اور جب ہماری آغوش میں وہ (دل) نہ سمایا تو جہان بن گیا، اپنی (مظلوم و محروم) سرگزشت کا خیال آیا تو وہ (بے رحم) آسمان بن گیا۔

بپرس اے داورِ محشر۔ چہ مے پرسی چہ می مپرسی
نگاہ حسرت آلایم کہ مے بینی بیانم شد

مے کی جگہ 'می' ہے!

بپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی چہ می مپرسی
نگاہِ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد

اے داورِ محشر، پوچھو، جو بھی مجھ سے پوچھنا ہے اور جو نہیں پوچھنا کہ میری حسرت آلایم نگاہ ہی میرا بیان ہے!

بگہ دزدیدہ افگندی بدل چوں راز جاں دارم
نظر کردی بہ بیباکی و فصل داستانم شد

بگہ کی جگہ 'نگہ' ہے شاید۔

نگہ دزدیدہ افگندی بدل چوں راز جاں دارم
نظر کردی بہ بیباکی و فصلِ داستانم شد

تیری دزدیدہ نگاہ جو دل پر پڑی تو میں نے اسے رازِ جاں بنا لیا، تو نے بیباکی سے دیکھا تو وہ ہماری داستان کا ایک باب بن گیا۔

دگرقدح جنوں در دہ کہ ہم در منزل اوّل
خیالِ و حشتم و امندو گردِ کار و انم شد

'امند' کا مطلب ڈھونڈنے سے قاصر ہوں۔

دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشتم و 'امندو' گردِ کاروانم شد

کوئی دوسرا جنون کا جام دے کہ پہلی منزل میں ہی، میرے خیال کی وحشت میں 'امند و' کارواں کی گرد ہو گیا ہے :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب بہت شکریہ اور یہ غزل پطرس بخاری ڈاٹ کام سے ہی اٹھائی ہے۔ اب فاتح صاحب کا انتظار کرتے ہیں کہ وہی کچھ تصحیح کریں گے۔
 

فاتح

لائبریرین

خیر اول تو یہ کہ غزل گوگل کرتے ہوئے میں نے پطرس بخاری کی ویب سائٹ پر دیکھی ہے لیکن اس کے ٹائپسٹ اور پروف ریڈرز دونوں پر اعتماد تھوڑا سا متزلزل ہے، اگر آپ کے پاس کلیات پطرس ہوں تو ضرور دیکھیئے گا، شاید فاتح صاحب کے پاس بھی کلیاتِ پطرس ہیں وہ بھی اگر اس غزل کو دیکھ سکیں تو نوازش کہ مجھے کچھ املاء کی غلطیاں لگ رہی ہیں اور چونکہ فارسی پر دسترس تو درکنار، شد بد بھی نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ میں ہی غلطی کر رہا ہوں۔ بہرحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"گجنید" مجھے کوئی لفظ نہیں ملا (میری کم علمی)، لیکن ہو سکتا ہے کہ ٹائپو ہو اور اسکی جگہ لفظ "گنجید" ہو گنجیدن سے بمعنی سمانا۔

بگہ کی جگہ 'نگہ' ہے شاید۔

'امند' کا مطلب ڈھونڈنے سے قاصر ہوں۔


بہت شکریہ فرخ صاحب اور وارث صاحب آپ کی فارسی دانی کے ساتھ آپ کا حافظہ بھی بلا کا ہے ماشاء اللہ! یہ تومجھے بھی یاد نہیں تھا کہ میرے پاس کلیات پطرس موجود ہے:grin:
اس کتاب کی کتابت میں بھی بے شمار اغلاط ہیں حتیٰ کہ اسی غزل میں بھی اس کے آن لائن ورژن سے زیادہ کتابت کی غلطیاں کتاب میں موجود ہیں کہ شاید پروف ریڈر کے پیسے بچائے ہوں 'مکتبہ شعر و ادب' نے:confused:
آپ نے دونوں اغلاط کی درست نشان دہی کی ہے کہ فی الحقیقت "گنجیند" اور "نگہ" ہی ہے اور "امند" والا مصرع کتاب میں کچھ یوں‌ہے:
خیال و حشتم و اماند و گردِ کاروانم شد​
مگر یہ بھی غلط لگ رہا ہے۔
اور کتاب میں "می پرسی "والے شعرکا بھی بیڑہ غرق کر کے یوں درج کیا گیا ہے:
بپرس اے داورِ محشر چہ مے پرسی می مپرسی
نگاہ حسرت آلایم کہ مے بینی بیانم شد​

اب گیند دوبارہ آپ کے کورٹ میں آ گئی ہے کہ ان دونوں اغلاط سے بھرپور نسخوں میں سے درست ترین چن کر تصحیح بھی فرما دیجیے۔
 

فاتح

لائبریرین
جیہ صاحبہ! اگر آپ کے پاس بھی ''مکتبہ شعر و ادب' کی مطبوعہ کلیاتِ پطرس ہے تو میں نے اسی سے دیکھ کر نشان دہی کی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اب گیند دوبارہ آپ کے کورٹ میں آ گئی ہے کہ ان دونوں اغلاط سے بھرپور نسخوں میں سے درست ترین چن کر تصحیح بھی فرما دیجیے۔



اجی حضرت کیا ہماری کورٹ اور کیا آپ کی پھینکی ہوئی گیند، میں ان دونوں نسخوں میں اپنی خودساختہ تصحیح کر کے، ان میں مزید اغلاط کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا :)


اور بہت شکریہ صحیح لفظ 'واماند' لکھنے کیلیے وگرنہ "خیالِ و حشتم و امند و گردِ کار و انم شد' نے بہت تنگ کیا! اور مجھے اب اس شعر کی کچھ کچھ سمجھ بھی آ رہی ہے :)

میرے خیال میں صحیح شعر کچھ یوں ہے اور اس سے وزن کا مسئلہ (جو کہ صرف اور صرف سہوِ کتابت کا پیدا کردہ ہے) بھی حل ہو جاتا ہے!

دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشَتَم واماند و گردِ کاروانَم شد

(اے قضا و قدر کے کارکنوں) جنون کا ایک اور جام دو کہ پہلی منزل میں ہی، میری وحشت کا خیال واماندہ (خستہ، کم) ہوا اور میں کارواں کی گرد بن گیا!
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب!
اب ذکر کچھ اپنی جہالت کا برملا کرتا چلوں کہ ایک تو فارسی سے بےبہرہ ہوں اور دوسرا کلیات میں ذیل کے مصرع میں خیال کی اضافت بھی موجود نہیں تھی تو میں وحشت کے و کو وصل گمان کرتا رہا اوریوں اسے وزن سے خارج تصور کیا:
خیال وحشتم و اماند و گردِ کاروانم شد​

مگر یہ شعر اب بھی آپ کی توجہ چاہتا ہے:
بپرس اے داورِ محشر چہ مے پرسی می مپرسی
نگاہ حسرت آلایم کہ مے بینی بیانم شد​
 

جیہ

لائبریرین
کلیات پطرس مرتبہ شیما مجید شایع کردہ بک ٹاک لاہور کے ساتھ دیکھنے کے بعد غزل پیش خدمت ہے

ہم آں داغے کہ بر دل از تو دارم حرز جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامندش سخن گو راز دارم شد

دلے بود و در آغوشم نگجنید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

بپرس اے داورِ محشر۔ چہ مے پرسی چہ می مپرسی
نگاہ حسرت آلائم کہ مے بینی بیانم شد

نگہ دزدیدہ افگندی بدِل چوں رازِ جاں دارم
نظر کردی بہ بے باکی و فصل داستانم شد

دگر قدح جنوں در دہ کہ ہم در منزل اوّل
خیالِ وحشتم وامندو گردِ کار وانم شد
 

سعدی غالب

محفلین
"مے" "می" میں کچھ تنازعہ نہیں
سارا فرق لہجے کا پیدا کردہ ہے
اہل ایران "مے" پڑھتے ہیں
اہل پاکستان "می" پڑھتے ہیں
ترجیح تو بہر حال اہل زبان کی بات کو ہی دی جائے گی
 
Top