میر مہدی مجروح ہم اپنا جو قصّہ سنانے لگے - میر مہدی مجروح

کاشفی

محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
ہم اپنا جو قصّہ سنانے لگے
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے
کہا تھا اُٹھا پردہء شرم کو
وہ اُلٹا ہمیں کو اُٹھانے لگے
ذرا دیکھئے اُن کی صنّاعیاں
مجھے دیکھ کر مُنہ بنانے لگے
کہا میں نے مِل یا مجھے مار ڈال
وہ جھٹ آستینیں چڑہانے لگے
مجھے آتے دیکھا جونہی دور سے
قدم اور جلدی اُٹھانے لگے
اُٹھے وہ تو اک حشر برپا کیا
جو بیٹھے تو فتنہ اُٹھانے لگے
غذا غم میں تھی میری خونِ جگر
اب اعدا کا بھی رشک کھانے لگے
کمالِ تعشق نہیں ہے ہنوز
ابھی سے وہ منہ کو چھپانے لگے
خفا ہو کے جب بے بُلائے گیا
مجھے دیکھ کر مُسکرانے لگے
غنیمت ہے اتنا تو اُٹھا حجاب
کہ اب خواب میں بھی وہ آنے لگے
وہ دل کے اُڑانے سے واقف نہ تھے
ہمیں تو یہ گھاتیں بتانے لگے
مگر اُن پہ رازِ محبت کھُلا
جو مجروح سے بچ کے جانے لگے
 
Top