طارق شاہ
محفلین
محسن علوی
جدہ سعودی عرب
ہم اگر دل کا تمھیں حال سنانے لگ جائیں
حالِ دل سُننے میں تم کو بھی زمانے لگ جائیں
تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے لگ جائیں
کبھی گزرے ہوئے موسم کبھی بیتے ہوئے دن
یاد آجائیں تو پھر ہم کو رُلانے لگ جائیں
واہ رے کشمکشِ وقتِ محبت کے نثار
کبھی رنجش ہو تو پھر ساتھ نِبھانے لگ جائیں
ہم نے خود کو بھی یہی سوچ کے روکے رکھا
جانے کیا ہو جو اگر تیر نشانے لگ جائیں
جانے کیا رسم چلی ہے تری دنیا میں خُدا
سر اٹھاتا ہوں تو سب لوگ گِرانے لگ جائیں
دردِ دل اُس پہ یہ انداز، کہیں کیا خود کو
کوئی مل جائے تو ہم شعر سُنانے لگ جائیں
دل تو دشمن کے کسی وار سے زخمی نہ ہوا
پر اگر دوست جو اب تیر اُٹھانے لگ جائیں
ان کی قربت کی مہک مجھ پہ عجب رنگ بنے
مِرے دل پر مِرے احساس پہ چھانے لگ جائیں
یہی خواہش ہے زمانے کے بھلے کی خاطر
چاہے دل سے بھی کوئی مانے نہ مانے لگ جائیں
میری مٹی تری اُلفت میں تمنا دل کی
دل کی دھڑکن پہ فقط تیرے ترانے لگ جائیں
دوستی تیرا بھلا ہو، کہ ترا نام تو ہے
ورنہ سب لوگ مِرے دل کو جلانے لگ جائیں
رب کی الفت کے ہوں صدقے اسی عظمت کے نثار
اسکی رحمت ہو تو، ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
انکے انداز پہ یہ سوچ کے خاموش رہے
وہ کہیں ہم سے محبت نہ چھپانے لگ جائیں
داستاں سُن کے ہر اک شخص ہی رنجیدہ ہو
داستانوں میں اگر میرے فسانے لگ جائیں
حُسن نے خود کو سنوارا ہے، خدا خیر کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ جائیں
درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں کا جھگڑا
پچھلے کالم میں ایک زمین کے جھگڑا کو کیا موضوع بنایا تھااورزمینوں کے جھگڑوں میں ہی الجھ کر رہ گیا ہوں۔خاص طور پر ایک زمین کا مقدمہ تو بہت دلچسپ ثابت ہواہے۔
یہ زمین اپنے مالک کی تلاش میں پھرتی ہے۔ زمین کا حدود دربع یہ ہے
تیرے دن جو میری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
اس میں میرے مطالعہ کے مطابق اس وقت تک تقریباًدس شعرائے کرام شعر کہہ چکے ہیں ۔اور تقریباً آدھے شاعر اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔
جب کہ کچھ شاعروں کا کہنا ہے کہ یہ کسی استاد شاعر کی زمین ہے ۔ کسی نے کہا کہ یہ انشاللہ خان انشائ کی زمین ہے کسی نے اسے آتش کی زمین قرار دیا
سو مجھے مالک تک پہنچنے میں خاصی محنت کرنی پڑی ۔ذاتی طور میرا اس زمین کے بارے میں یہی خیال تھا کہ یہ کسی استاد کی زمین نہیں ہوسکتی کیونکہ
اس کی وجہ اس کی بحر رمل مثمن مجنون ہے ۔ جسے زحافات کے ساتھ بھی﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان﴾ تو بنا یا جا سکتا ہے لیکن﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن﴾ نہیں بنایا جا سکتا
اور اگر بنا دیا جائے تو پھر اس کے ساتھ﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾ نہیں چل سکتا ۔جب کہ جس زمین کا مقدمہ اس وقت درپیش ہے اس میں یہ دونوں وزن ایک ہی بحر کے قرار دئیے گئے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فارسی زبان میں اس بات کی اجازت ہے مگر مجھے کوئی مثال نہیں مل سکی ایک اور بات کہ ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ بحر﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان﴾ ہی ہے
اور اس میں ردیف کا آخری لفظ '' جائیں '' فعل کے وزن پر باندھا گیا ہے تواس کی توقع استاد شعرائے کرام سے کم ہی کی جاسکتی ہے ۔پھر اس بحر میں بہت زیادہ شاعری کی گئی ہے
علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ بھی اسی بحر میں ہے ۔
کہیں ایسا کچھ نظر نہیں آیا ۔لیکن میرے خیال میں کہیں کسی نے استاد نے ضرور اس طرح زحافات کا استعمال کیا ہے
وگرنہ احمد فراز ، بیدل حیدری اورمحسن احسان اور ڈاکٹر مختارالدین مختار اس زمین میں غزل نہ کہتے۔احمد فراز کا مطلع ہے
کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
بیدل چیدری کی غزل کے کچھ شعر بہت اچھے ہیں ایک شعر دیکھئے
انتظار اتنا بھی اس کا نہ زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
محسن احسان نے بھی مطلع بہت اچھا نکالا ہے
اب کے صیاد جو دوچار ٹھکانے لگ جائیں
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
ڈاکٹر مختار الدین مختارکا اس زمین میں نعت کا ایک خوبصورت شعر
اب یہ حسرت ہے کہ ہر بات بھلا کر مختار
خواب آنکھوں میں مدینے کے سجانے لگ جائیں
صباحت عاصم واسطی نے اس زمین میں جو غزل کہی ہے اس میں نئی حسیات کی آمد نے اسے دوسروں سے خاصہ مختلف کر دیا ہے۔ اس کے دوشعر دیکھئے
چلئے ہم ہی ترا بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ ترے جسم کو شانے لگ جائیں
یوں نہ ہو کوئی مکینوں کی نہ سوچے عاصم
آگ ہی صرف رضا کار بجھانے لگ جائیں
راشد امین کی بھی اس زمین میں غزل موجود ہے اور اس میں اس کا تیکھاپن تو خیر ہی ہے
گاؤں کا پس منظر بھی ابھر کر سامنے آیا ہے جس نے اس کے شعروں میں دیہات کی ہوا کی تازہ دمی بھردی ہے
جیب میں رکھ لوں ترے شہر میں دونوں آنکھیں
گاؤں جانے میں مجھے پھر نہ زمانے لگ جائیں
تُو بگڑتا ہے تو ہم تجھ کو منا لیتے ہیں
ہم جو بگڑیں تو ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
اس زمین میں عباس تابش کی غزل کا ایک شعربھی مجھے بہت اچھا لگتاہے
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
قیوم طاہر نے بھی اس زمین میں طنع آزمائی کی ہے
خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں
درد جاگیں تو سلانے میں زمانے لگ جائیں
نوجوان شاعرحماد اظہر نے بھی کچھ شعر اس زمین بہت اچھے نکالے ہیں
ایک ناکام محبت کا حوالہ ہے بہت
کیا ضروری ہے کہانی ہی سنانے لگ جائیں
اور میں نے جو اس زمین میں غزل کہی ہوئی ہے اس کا مطلع تو زمین کا حدوددربع بیان کرنے کیلئے آغاز میں ہی درج کر دیا تھا مقطع بھی سن لیجئے
پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
ہاں تو مقدمہ یہ تھا کہ اس زمین کا مالک کون ہے ۔انشا خان کے ہاں بھی مجھے یہ زمین نہیں ملی ،
آتش کے کلام میں بھی موجود نہیں، اس کے قریب ترین جو زمین کہیں دکھائی دی ہے وہ آرزو کی یہ غزل ہے
مجھ کو لگتی ہے نئی صورت ِ بیداد کوئی
یہ توممکن نہیں پہلو سے صنم لگ جائے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کسی استاد کی زمین نہیں تو سب سے پہلے کس نے کہی ۔
تلاش کے اس عمل میں اس بات کا پتہ چلا کہ سب سے پرانی غزل احمد فراز اوربیدل حیدری کی ہیں
دونوں ایک زمانے میں کہی گئی ہیں ۔بیدل حیدری کے ایک شاگرد اطہر ناسک کے بقول بیدل صاحب کو فراز کی یہ زمین اچھی لگی تھی
اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس میں غزل سنائی تھی کہ فراز اس زمین سے کوئی گہر نکال نہ سکا، دیکھئے میں نے بھی کوشش کی ہے
۔یوں اس زمین کا مالک احمد فراز ہی کو قرار دیا جا سکتا مگر برطانیہ میں اس زمین کی مقبولیت کا سبب راشد امین بنا ہے
سب سے پہلے یہاں اسی نے اس زمین میں غزل کہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی غزلیں سامنے آئیں ۔
ممکن ہے اس زمین کے بارے میں میرا مطالعہ نامکمل ہو اور کوئی صاحب علم کچھ اور بھی جانتا ہو ۔
اگر اس موضوع پر کوئی صاحب حوالے کے ساتھ بات کرے تو مجھے انتظار رہے گا۔کیونکہ علم کسی میراث نہیں ۔تحقیق کے میدان میں بڑے بڑے لوگ پڑے ہیں ۔
منصور آفاق. یو کے
..................
رام ریاض
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں
ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں
ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
؟
........
جدہ سعودی عرب
ہم اگر دل کا تمھیں حال سنانے لگ جائیں
حالِ دل سُننے میں تم کو بھی زمانے لگ جائیں
تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے لگ جائیں
کبھی گزرے ہوئے موسم کبھی بیتے ہوئے دن
یاد آجائیں تو پھر ہم کو رُلانے لگ جائیں
واہ رے کشمکشِ وقتِ محبت کے نثار
کبھی رنجش ہو تو پھر ساتھ نِبھانے لگ جائیں
ہم نے خود کو بھی یہی سوچ کے روکے رکھا
جانے کیا ہو جو اگر تیر نشانے لگ جائیں
جانے کیا رسم چلی ہے تری دنیا میں خُدا
سر اٹھاتا ہوں تو سب لوگ گِرانے لگ جائیں
دردِ دل اُس پہ یہ انداز، کہیں کیا خود کو
کوئی مل جائے تو ہم شعر سُنانے لگ جائیں
دل تو دشمن کے کسی وار سے زخمی نہ ہوا
پر اگر دوست جو اب تیر اُٹھانے لگ جائیں
ان کی قربت کی مہک مجھ پہ عجب رنگ بنے
مِرے دل پر مِرے احساس پہ چھانے لگ جائیں
یہی خواہش ہے زمانے کے بھلے کی خاطر
چاہے دل سے بھی کوئی مانے نہ مانے لگ جائیں
میری مٹی تری اُلفت میں تمنا دل کی
دل کی دھڑکن پہ فقط تیرے ترانے لگ جائیں
دوستی تیرا بھلا ہو، کہ ترا نام تو ہے
ورنہ سب لوگ مِرے دل کو جلانے لگ جائیں
رب کی الفت کے ہوں صدقے اسی عظمت کے نثار
اسکی رحمت ہو تو، ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
انکے انداز پہ یہ سوچ کے خاموش رہے
وہ کہیں ہم سے محبت نہ چھپانے لگ جائیں
داستاں سُن کے ہر اک شخص ہی رنجیدہ ہو
داستانوں میں اگر میرے فسانے لگ جائیں
حُسن نے خود کو سنوارا ہے، خدا خیر کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ جائیں
درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں کا جھگڑا
پچھلے کالم میں ایک زمین کے جھگڑا کو کیا موضوع بنایا تھااورزمینوں کے جھگڑوں میں ہی الجھ کر رہ گیا ہوں۔خاص طور پر ایک زمین کا مقدمہ تو بہت دلچسپ ثابت ہواہے۔
یہ زمین اپنے مالک کی تلاش میں پھرتی ہے۔ زمین کا حدود دربع یہ ہے
تیرے دن جو میری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
اس میں میرے مطالعہ کے مطابق اس وقت تک تقریباًدس شعرائے کرام شعر کہہ چکے ہیں ۔اور تقریباً آدھے شاعر اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔
جب کہ کچھ شاعروں کا کہنا ہے کہ یہ کسی استاد شاعر کی زمین ہے ۔ کسی نے کہا کہ یہ انشاللہ خان انشائ کی زمین ہے کسی نے اسے آتش کی زمین قرار دیا
سو مجھے مالک تک پہنچنے میں خاصی محنت کرنی پڑی ۔ذاتی طور میرا اس زمین کے بارے میں یہی خیال تھا کہ یہ کسی استاد کی زمین نہیں ہوسکتی کیونکہ
اس کی وجہ اس کی بحر رمل مثمن مجنون ہے ۔ جسے زحافات کے ساتھ بھی﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان﴾ تو بنا یا جا سکتا ہے لیکن﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن﴾ نہیں بنایا جا سکتا
اور اگر بنا دیا جائے تو پھر اس کے ساتھ﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾ نہیں چل سکتا ۔جب کہ جس زمین کا مقدمہ اس وقت درپیش ہے اس میں یہ دونوں وزن ایک ہی بحر کے قرار دئیے گئے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فارسی زبان میں اس بات کی اجازت ہے مگر مجھے کوئی مثال نہیں مل سکی ایک اور بات کہ ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ بحر﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان﴾ ہی ہے
اور اس میں ردیف کا آخری لفظ '' جائیں '' فعل کے وزن پر باندھا گیا ہے تواس کی توقع استاد شعرائے کرام سے کم ہی کی جاسکتی ہے ۔پھر اس بحر میں بہت زیادہ شاعری کی گئی ہے
علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ بھی اسی بحر میں ہے ۔
کہیں ایسا کچھ نظر نہیں آیا ۔لیکن میرے خیال میں کہیں کسی نے استاد نے ضرور اس طرح زحافات کا استعمال کیا ہے
وگرنہ احمد فراز ، بیدل حیدری اورمحسن احسان اور ڈاکٹر مختارالدین مختار اس زمین میں غزل نہ کہتے۔احمد فراز کا مطلع ہے
کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
بیدل چیدری کی غزل کے کچھ شعر بہت اچھے ہیں ایک شعر دیکھئے
انتظار اتنا بھی اس کا نہ زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
محسن احسان نے بھی مطلع بہت اچھا نکالا ہے
اب کے صیاد جو دوچار ٹھکانے لگ جائیں
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
ڈاکٹر مختار الدین مختارکا اس زمین میں نعت کا ایک خوبصورت شعر
اب یہ حسرت ہے کہ ہر بات بھلا کر مختار
خواب آنکھوں میں مدینے کے سجانے لگ جائیں
صباحت عاصم واسطی نے اس زمین میں جو غزل کہی ہے اس میں نئی حسیات کی آمد نے اسے دوسروں سے خاصہ مختلف کر دیا ہے۔ اس کے دوشعر دیکھئے
چلئے ہم ہی ترا بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ ترے جسم کو شانے لگ جائیں
یوں نہ ہو کوئی مکینوں کی نہ سوچے عاصم
آگ ہی صرف رضا کار بجھانے لگ جائیں
راشد امین کی بھی اس زمین میں غزل موجود ہے اور اس میں اس کا تیکھاپن تو خیر ہی ہے
گاؤں کا پس منظر بھی ابھر کر سامنے آیا ہے جس نے اس کے شعروں میں دیہات کی ہوا کی تازہ دمی بھردی ہے
جیب میں رکھ لوں ترے شہر میں دونوں آنکھیں
گاؤں جانے میں مجھے پھر نہ زمانے لگ جائیں
تُو بگڑتا ہے تو ہم تجھ کو منا لیتے ہیں
ہم جو بگڑیں تو ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
اس زمین میں عباس تابش کی غزل کا ایک شعربھی مجھے بہت اچھا لگتاہے
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
قیوم طاہر نے بھی اس زمین میں طنع آزمائی کی ہے
خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں
درد جاگیں تو سلانے میں زمانے لگ جائیں
نوجوان شاعرحماد اظہر نے بھی کچھ شعر اس زمین بہت اچھے نکالے ہیں
ایک ناکام محبت کا حوالہ ہے بہت
کیا ضروری ہے کہانی ہی سنانے لگ جائیں
اور میں نے جو اس زمین میں غزل کہی ہوئی ہے اس کا مطلع تو زمین کا حدوددربع بیان کرنے کیلئے آغاز میں ہی درج کر دیا تھا مقطع بھی سن لیجئے
پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
ہاں تو مقدمہ یہ تھا کہ اس زمین کا مالک کون ہے ۔انشا خان کے ہاں بھی مجھے یہ زمین نہیں ملی ،
آتش کے کلام میں بھی موجود نہیں، اس کے قریب ترین جو زمین کہیں دکھائی دی ہے وہ آرزو کی یہ غزل ہے
مجھ کو لگتی ہے نئی صورت ِ بیداد کوئی
یہ توممکن نہیں پہلو سے صنم لگ جائے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کسی استاد کی زمین نہیں تو سب سے پہلے کس نے کہی ۔
تلاش کے اس عمل میں اس بات کا پتہ چلا کہ سب سے پرانی غزل احمد فراز اوربیدل حیدری کی ہیں
دونوں ایک زمانے میں کہی گئی ہیں ۔بیدل حیدری کے ایک شاگرد اطہر ناسک کے بقول بیدل صاحب کو فراز کی یہ زمین اچھی لگی تھی
اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس میں غزل سنائی تھی کہ فراز اس زمین سے کوئی گہر نکال نہ سکا، دیکھئے میں نے بھی کوشش کی ہے
۔یوں اس زمین کا مالک احمد فراز ہی کو قرار دیا جا سکتا مگر برطانیہ میں اس زمین کی مقبولیت کا سبب راشد امین بنا ہے
سب سے پہلے یہاں اسی نے اس زمین میں غزل کہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی غزلیں سامنے آئیں ۔
ممکن ہے اس زمین کے بارے میں میرا مطالعہ نامکمل ہو اور کوئی صاحب علم کچھ اور بھی جانتا ہو ۔
اگر اس موضوع پر کوئی صاحب حوالے کے ساتھ بات کرے تو مجھے انتظار رہے گا۔کیونکہ علم کسی میراث نہیں ۔تحقیق کے میدان میں بڑے بڑے لوگ پڑے ہیں ۔
منصور آفاق. یو کے
..................
رام ریاض
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں
ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں
ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
؟
........