ایم اسلم اوڈ
محفلین
امریکہ اکیسویں صدی میں اسلامی دنیا کے خلاف جو صلیبی جنگ چھیڑے ہوئے ہے، اس کا ایک نمایاں پہلو ڈرون طیاروں سے پاکستان، افغانستان، یمن اور صومالیہ میں کئے جانے والے حملے ہیں۔ سینکڑوں ڈرون حملوں میں القاعدہ کے نام پر ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید کئے جا چکے ہیں۔ ایک بڑا ڈرون حملہ مارچ 2011ء میں وزیرستان کے ایک گائوںپر ہوا، جس میں 40افراد شہید ہوئے جو سب ایک قبائلی جرگے میں شرکت کر رہے تھے مگر امریکہ کے اندھے انتقام کا نشانہ بن گئے۔ اسی سال ستمبر میں یمن میں ایک ڈرون حملہ ہوا جس میں امریکیوں کے بقول انتہا پسند عالم دین انور العولقی شہید کر دیئے گئے، حالانکہ وہ پیدائشی امریکی تھے۔ دو ہفتے بعد 14اکتوبر 2011ء کو یمن میں ان کے خاندانی ڈیرے پر ایک اور ڈرون حملہ ہوا جس میں انور العولقی شہید کا سولہ سالہ بیٹا عبدالرحمن العولقی شہید ہو گیا۔ وہ 26اگست 1995ء کو ڈینور (امریکہ) میں پیدا ہوا تھا، اس کے اعزّہ کے بقول وہ روشن مستقبل والا خوش باش نوجوان تھا۔ اسے اور اس کے والد دونوں کو کسی امریکی عدالت نے کسی جرم کے مرتکب نہیں ٹھہرایا تھا، پھر بھی ظالم امریکیوں نے ان کی جانیں لے لیں۔ اوباما حکومت نے صریح جھوٹ بولا کہ بیس پچیس کے پیٹے میں عبدالرحمن القاعدہ کا ایجنٹ تھا جبکہ عولقی خاندان نے اس کی تصویریں اور پیدائشی سرٹیفکیٹ پیش کر دیا جس پر اوباما انتظامیہ نے کھسیانی ہو کر عبدالرحمن کو ’’فوجی عمر کا آدمی‘‘ قرار دے دیا۔ جھوٹے امریکیوں پر اللہ کی لعنت! اس سانحے پر Antiwar کے قلمکار ایڈم بیٹس نے لکھا:
’’گزشتہ ہفتے امریکی صدر اوباما نے 17سالہ ٹریون مارٹن کی موت پر سوگوار بیان جاری کیا جس میں یہ کہا کہ ’’اگر میرا بیٹا ہوتا تو وہ ٹریون ہی کی طرح کا لگتا۔‘‘ صدر نے ’’دلی غم‘‘ ظاہر کیا مگر اوباما کو ٹریون سے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے عبدالرحمن العولقی کے محض 16سال کی عمر میں ہلاک کر دیئے جانے کا بھی غم کھانا چاہئے جو کہ ان کے تصوراتی بیٹے ہی کی طرح گہری رنگت اور سیاہ بالوں والا نوجوان تھا۔ مگر اس کے لئے نہ تو صدر اوباما نے کرب انگیز بیان جاری کیا، نہ کانگرس کے فلور پر احتجاج ہوا اور نہ اس کا انتقام لینے کی صدا بلند ہوئی۔‘‘
درحقیقت اوباما نہایت سنگدل صلیبی گوروں کا آلۂ کار ہے۔ اس نے گزشتہ تین برسوں میں امریکی سی آئی اے کے خفیہ ٹارگٹ کلنگ پروگرام کو 500گنا تیز کر دیا ہے۔ اس دوران میں اوباما نے 240خفیہ ڈرون حملوں کی منظوری دی جبکہ جارج بش کے عہدِ حکومت میں 50سے کم ڈرون حملے ہوئے تھے۔ اوباما انتظامیہ کا خیال تھا کہ اتحادی افواج کے بجائے تباہ کن ڈرون کارروائیوں سے طالبان کا جنگی بیس کمزور ہو جائے گا اور ان کی گوریلا حربی صلاحیت شدید متاثر ہو گی، لیکن ڈرون حملوں کے نتائج برعکس نکلے ہیں اور پشتون بیلٹ میں طالبان کی حمایت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران میں طالبان نے اتحادیوں پر پے در پے حملے کئے ہیں۔ دوہفتے پہلے انہوں نے دنیا کے مضبوط ترین سکیورٹی حصار میں گھرے کابل کو روند ڈالا اور درجنوں امریکی و اتحادی جہنم رسید کر دیئے۔ طالبان مجاہدین نے افغانی پارلیمنٹ کی عمارت، اور ناٹو ہیڈ کوارٹر سمیت امریکی، جرمن، جاپانی اور روسی سفارت خانوں پر تابڑ توڑ منظم حملے کر کے ہر طرف تباہی پھیلا دی۔ انہوں نے ایک نو تعمیر شدہ جدید ہوٹل کی عمارت پر قبضہ کر کے بعد ازاں اسے نذرِآتش کر دیا۔ اتحادیوں کے اعلان کے مطابق اس خونریز حملے میں کم از کم4شہری، 11فوجی اور تین درجن باغی مارے گئے۔ کٹھ پتلی صدر کرزئی کو اس حملے پر کہنا پڑا ’’یہ ہمارے لئے خصوصاً ناٹو کے لئے انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔‘‘
چند روز بعد ایک جہادی کارروائی میں 7امریکی جہنم رسید ہوئے، نیز ایک افغان فوجی نے فائرنگ کر کے ایک امریکی ہلاک اور کئی زخمی کر دیئے۔ پچھلے ہفتے ہی طالبان نے ایک جدید ترین امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مار گرایا جس میں سوار چار کمانڈوز واصل جہنم ہوئے جبکہ امریکہ نے حسبِ روایت اسے حادثہ قرار دے دیا۔
ڈیوڈ رہوڈ نیویارک ٹائمز سے وابستہ رہا ہے، 2008ء میں طالبان نے اسے اغوا کر لیا تھا اور وہ سات ماہ قبائلی علاقے میں قید رہا۔ حال ہی میں اپنے ایک کالم میں ڈیوڈ رہوڈ نے لکھا: ’’اوباما کے تحت ڈرون حملے بہت کثرت سے ہونے لگے ہیں اور ان یکطرفہ حملوں میں امریکی فوجی قوت بے رحمانہ استعمال کی جاتی ہے۔‘‘ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا آغاز جنوری 2006ء میں مہمند ایجنسی میں ڈمہ ڈولہ پر حملے سے ہوا تھا جس میں 16پاکستانی شہید ہوئے تھے، پھر اکتوبر میں باجوڑ کے مدرسے پر نماز فجر کے وقت ڈرون حملہ ہوا جس میں 84طلبہ اور اساتذہ جام شہادت نوش کر گئے مگر مشرف حکومت نے دونوں مرتبہ بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ کارروائیاں پاکستانی فورسز نے کی ہیں اور یہ جھوٹ بھی بولا گیا کہ مدرسہ باجوڑ کے طلبہ عسکری تربیت لے رہے تھے۔
گزشتہ نومبر میں سلالہ چوکی پر جارحانہ امریکی حملے میں 25پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد اگرچہ پاکستان نے امریکیوں سے شمسی ایئربیس خالی کرا لیا جہاں سے ڈرون اڑ کر ہمارے ہی ہم وطنوں کے پرخچے اڑاتے تھے۔ یہ ایئربیس اواخر 2001ء میں جنرل مشرف نے امریکیوں کے حوالے کر دیا تھا اور ’’پریڈیٹر‘‘ اور ’’ریپر‘‘ نامی ڈرون طیارے یہیں سے گزشتہ چھ برسوں میں ہمارے قبائلی علاقوں میں تباہی مچاتے رہے ہیں۔ لیکن بات صرف شمسی ایئربیس کی نہیں، پاکستان کے چار اور فوجی اڈے بھی امریکیوں کے تسلط میں ہیں۔ سب سے بڑا شہباز ایئربیس (جیکب آباد) ہے۔ شروع شروع میں یہیں سے ڈرون اڑتے تھے، اور حال ہی میں کئے گئے ڈرون حملے بھی غالباً یہیں سے عمل میں لائے گئے۔ جب یہ اڈا امریکیوں کی تحویل میں دیا گیا تو جمعیۃ علمائے اسلام نے اس کا گھیرائو کیا تھا جس پر ہماری فورسز کی فائرنگ سے جے یو آئی کے کئی کارکن شہید ہو گئے کیونکہ بزدل اور بدنہاد پرویز مشرف نے جو سات ناجائز امریکی مطالبات مان لئے تھے ان میں سے ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ امریکہ کا ساتھ دینے پر عوامی احتجاجی تحریک کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ پھر ایک ہفتہ بعد جماعت اسلامی نے بھی شہباز ایئربیس کا ناکام گھیرائو کیا تھا۔ 2010ء کے سیلاب کے دوران وزیر صحت خوشنود لاشاری نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ پاکستان سیلاب زدگان کو امداد پہنچانے کے لئے شہباز ایئربیس استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ ایئربیس کا اندرونی حصہ وہاں تعینات 50امریکی فوجیوں کی تحویل میں ہے اور وہاں کوئی پاکستانی قدم نہیں رکھ سکتا۔
علاوہ ازیں چکلالہ ایئربیس بھی مستقل طور پر امریکیوں کے زیراستعمال ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے دنوں میں یہاں 300امریکی فوجی تعینات رہے۔ کوئٹہ ایئربیس کو بھی امریکی وقتاً فوقتاً استعمال کر لیتے ہیں۔ تربیلا کا بڑا ہیلی پیڈ بھی امریکی استعمال میں ہے۔ چینوک ہیلی کاپٹر یہاں تعینات رہے ہیں۔ ایبٹ آباد پر حملے (2مئی 2011ئ) میں یہیں سے امریکی ہیلی کاپٹر اڑے ہوں گے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد کے بعد بھی امریکیوں نے ڈرون حملے کئے ہیں اور اس پر زرداری حکومت نے نیم دلی سے احتجاج کیا۔ گزشتہ دنوں امریکی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان مارک گراسمین اسلام آباد آیا اور اس سے ملاقات کے بعد ہماری دھان پان وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ گراسمین نے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈرون حملے روکنے سمیت پاکستان کے تین بنیادی مطالبات تسلیم کرنے سے گراسمین نے ’’بے بسی‘‘ ظاہر کی۔ ڈرون آپریشن پر مشترکہ کنٹرول کی تجویز اور سلالہ حملے کے مجرموں تک رسائی کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا گیا۔ بھلا واشنگٹن این آر او کی امریکی مفاہمت سے بننے والی کمزور حکومت کا ہر مطالبہ کیونکر مان سکتا ہے۔ اس کے لئے تو اسلام آباد میں ایک مضبوط حکومت درکار ہے!
پارلیمانی قرار داد کی منظوری کے بعد امریکہ نے 29 اپریل کو پھر ڈرون حملہ کر دیا۔ ڈرون نے میران شاہ بازار میں لڑکیوں کے سکول پر دو میزائل داغے جس سے عمارت تباہ ہو گئی۔ اس حملے میں 6 افراد شہید ہوئے جن میں مبینہ طور پر تین غیر ملکی شامل ہیں۔ ہمارے دفتر خارجہ نے بے بسی سے اس خونیں کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی بے بسی افسوسناک ہے!
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
’’گزشتہ ہفتے امریکی صدر اوباما نے 17سالہ ٹریون مارٹن کی موت پر سوگوار بیان جاری کیا جس میں یہ کہا کہ ’’اگر میرا بیٹا ہوتا تو وہ ٹریون ہی کی طرح کا لگتا۔‘‘ صدر نے ’’دلی غم‘‘ ظاہر کیا مگر اوباما کو ٹریون سے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے عبدالرحمن العولقی کے محض 16سال کی عمر میں ہلاک کر دیئے جانے کا بھی غم کھانا چاہئے جو کہ ان کے تصوراتی بیٹے ہی کی طرح گہری رنگت اور سیاہ بالوں والا نوجوان تھا۔ مگر اس کے لئے نہ تو صدر اوباما نے کرب انگیز بیان جاری کیا، نہ کانگرس کے فلور پر احتجاج ہوا اور نہ اس کا انتقام لینے کی صدا بلند ہوئی۔‘‘
درحقیقت اوباما نہایت سنگدل صلیبی گوروں کا آلۂ کار ہے۔ اس نے گزشتہ تین برسوں میں امریکی سی آئی اے کے خفیہ ٹارگٹ کلنگ پروگرام کو 500گنا تیز کر دیا ہے۔ اس دوران میں اوباما نے 240خفیہ ڈرون حملوں کی منظوری دی جبکہ جارج بش کے عہدِ حکومت میں 50سے کم ڈرون حملے ہوئے تھے۔ اوباما انتظامیہ کا خیال تھا کہ اتحادی افواج کے بجائے تباہ کن ڈرون کارروائیوں سے طالبان کا جنگی بیس کمزور ہو جائے گا اور ان کی گوریلا حربی صلاحیت شدید متاثر ہو گی، لیکن ڈرون حملوں کے نتائج برعکس نکلے ہیں اور پشتون بیلٹ میں طالبان کی حمایت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران میں طالبان نے اتحادیوں پر پے در پے حملے کئے ہیں۔ دوہفتے پہلے انہوں نے دنیا کے مضبوط ترین سکیورٹی حصار میں گھرے کابل کو روند ڈالا اور درجنوں امریکی و اتحادی جہنم رسید کر دیئے۔ طالبان مجاہدین نے افغانی پارلیمنٹ کی عمارت، اور ناٹو ہیڈ کوارٹر سمیت امریکی، جرمن، جاپانی اور روسی سفارت خانوں پر تابڑ توڑ منظم حملے کر کے ہر طرف تباہی پھیلا دی۔ انہوں نے ایک نو تعمیر شدہ جدید ہوٹل کی عمارت پر قبضہ کر کے بعد ازاں اسے نذرِآتش کر دیا۔ اتحادیوں کے اعلان کے مطابق اس خونریز حملے میں کم از کم4شہری، 11فوجی اور تین درجن باغی مارے گئے۔ کٹھ پتلی صدر کرزئی کو اس حملے پر کہنا پڑا ’’یہ ہمارے لئے خصوصاً ناٹو کے لئے انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔‘‘
چند روز بعد ایک جہادی کارروائی میں 7امریکی جہنم رسید ہوئے، نیز ایک افغان فوجی نے فائرنگ کر کے ایک امریکی ہلاک اور کئی زخمی کر دیئے۔ پچھلے ہفتے ہی طالبان نے ایک جدید ترین امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مار گرایا جس میں سوار چار کمانڈوز واصل جہنم ہوئے جبکہ امریکہ نے حسبِ روایت اسے حادثہ قرار دے دیا۔
ڈیوڈ رہوڈ نیویارک ٹائمز سے وابستہ رہا ہے، 2008ء میں طالبان نے اسے اغوا کر لیا تھا اور وہ سات ماہ قبائلی علاقے میں قید رہا۔ حال ہی میں اپنے ایک کالم میں ڈیوڈ رہوڈ نے لکھا: ’’اوباما کے تحت ڈرون حملے بہت کثرت سے ہونے لگے ہیں اور ان یکطرفہ حملوں میں امریکی فوجی قوت بے رحمانہ استعمال کی جاتی ہے۔‘‘ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا آغاز جنوری 2006ء میں مہمند ایجنسی میں ڈمہ ڈولہ پر حملے سے ہوا تھا جس میں 16پاکستانی شہید ہوئے تھے، پھر اکتوبر میں باجوڑ کے مدرسے پر نماز فجر کے وقت ڈرون حملہ ہوا جس میں 84طلبہ اور اساتذہ جام شہادت نوش کر گئے مگر مشرف حکومت نے دونوں مرتبہ بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ کارروائیاں پاکستانی فورسز نے کی ہیں اور یہ جھوٹ بھی بولا گیا کہ مدرسہ باجوڑ کے طلبہ عسکری تربیت لے رہے تھے۔
گزشتہ نومبر میں سلالہ چوکی پر جارحانہ امریکی حملے میں 25پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد اگرچہ پاکستان نے امریکیوں سے شمسی ایئربیس خالی کرا لیا جہاں سے ڈرون اڑ کر ہمارے ہی ہم وطنوں کے پرخچے اڑاتے تھے۔ یہ ایئربیس اواخر 2001ء میں جنرل مشرف نے امریکیوں کے حوالے کر دیا تھا اور ’’پریڈیٹر‘‘ اور ’’ریپر‘‘ نامی ڈرون طیارے یہیں سے گزشتہ چھ برسوں میں ہمارے قبائلی علاقوں میں تباہی مچاتے رہے ہیں۔ لیکن بات صرف شمسی ایئربیس کی نہیں، پاکستان کے چار اور فوجی اڈے بھی امریکیوں کے تسلط میں ہیں۔ سب سے بڑا شہباز ایئربیس (جیکب آباد) ہے۔ شروع شروع میں یہیں سے ڈرون اڑتے تھے، اور حال ہی میں کئے گئے ڈرون حملے بھی غالباً یہیں سے عمل میں لائے گئے۔ جب یہ اڈا امریکیوں کی تحویل میں دیا گیا تو جمعیۃ علمائے اسلام نے اس کا گھیرائو کیا تھا جس پر ہماری فورسز کی فائرنگ سے جے یو آئی کے کئی کارکن شہید ہو گئے کیونکہ بزدل اور بدنہاد پرویز مشرف نے جو سات ناجائز امریکی مطالبات مان لئے تھے ان میں سے ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ امریکہ کا ساتھ دینے پر عوامی احتجاجی تحریک کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ پھر ایک ہفتہ بعد جماعت اسلامی نے بھی شہباز ایئربیس کا ناکام گھیرائو کیا تھا۔ 2010ء کے سیلاب کے دوران وزیر صحت خوشنود لاشاری نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ پاکستان سیلاب زدگان کو امداد پہنچانے کے لئے شہباز ایئربیس استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ ایئربیس کا اندرونی حصہ وہاں تعینات 50امریکی فوجیوں کی تحویل میں ہے اور وہاں کوئی پاکستانی قدم نہیں رکھ سکتا۔
علاوہ ازیں چکلالہ ایئربیس بھی مستقل طور پر امریکیوں کے زیراستعمال ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے دنوں میں یہاں 300امریکی فوجی تعینات رہے۔ کوئٹہ ایئربیس کو بھی امریکی وقتاً فوقتاً استعمال کر لیتے ہیں۔ تربیلا کا بڑا ہیلی پیڈ بھی امریکی استعمال میں ہے۔ چینوک ہیلی کاپٹر یہاں تعینات رہے ہیں۔ ایبٹ آباد پر حملے (2مئی 2011ئ) میں یہیں سے امریکی ہیلی کاپٹر اڑے ہوں گے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد کے بعد بھی امریکیوں نے ڈرون حملے کئے ہیں اور اس پر زرداری حکومت نے نیم دلی سے احتجاج کیا۔ گزشتہ دنوں امریکی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان مارک گراسمین اسلام آباد آیا اور اس سے ملاقات کے بعد ہماری دھان پان وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ گراسمین نے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈرون حملے روکنے سمیت پاکستان کے تین بنیادی مطالبات تسلیم کرنے سے گراسمین نے ’’بے بسی‘‘ ظاہر کی۔ ڈرون آپریشن پر مشترکہ کنٹرول کی تجویز اور سلالہ حملے کے مجرموں تک رسائی کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا گیا۔ بھلا واشنگٹن این آر او کی امریکی مفاہمت سے بننے والی کمزور حکومت کا ہر مطالبہ کیونکر مان سکتا ہے۔ اس کے لئے تو اسلام آباد میں ایک مضبوط حکومت درکار ہے!
پارلیمانی قرار داد کی منظوری کے بعد امریکہ نے 29 اپریل کو پھر ڈرون حملہ کر دیا۔ ڈرون نے میران شاہ بازار میں لڑکیوں کے سکول پر دو میزائل داغے جس سے عمارت تباہ ہو گئی۔ اس حملے میں 6 افراد شہید ہوئے جن میں مبینہ طور پر تین غیر ملکی شامل ہیں۔ ہمارے دفتر خارجہ نے بے بسی سے اس خونیں کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی بے بسی افسوسناک ہے!
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput