عبد الرحمٰن
محفلین
ہم بیٹیوں کے کھلونے نیلام نہیں کراتے
شام ڈھلے فیصل کا فون آیا۔وہ ایک لشکری تھا جو مال غنیمت لوٹنے کو تیار بیٹھا تھا۔
اس نے بتایا کہ کچھ ترک اساتذہ ڈی پورٹ ہو رہے ہیں،ان کے پاس وقت بہت کم ہے ، وہ اپنا سازو سامان اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں،ایسے مواقع بار بار نہیں آتے ،اچھا سامان بہت سستا مل جائے گا،یوں سمجھیے مفت ہی میں مل جائے گا،ترک اساتذہ کے پاس بھاﺅ تاﺅ کا وقت نہیں ہے، حقیقی لوٹ سیل لگی ہے،تم بھی آ جاﺅ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی ترنگ میں بولتا چلا گیا ۔وہ ہے ہی ایسا ۔تفکرات سے نیاز ،لا ابالی سا نوجوان۔اسے صرف قہقہے بکھیرنا اور یاروں کی محفلیں آباد کرنا آتا ہے۔یہ قہقہے بسا اوقات دوسروں کے لیے کتنے تکلیف دہ ہو سکتے ہیںاسے اس کا احساس کبھی نہیں ہوا۔ اداسی کی ایک لہر میرے وجود میں اتر گئی۔انہی اداس لمحوں کے زیر اثر میں نے رات پوسٹ کی کہ اے فرزندان حق ! مال غنیمت بٹ رہا ہے ،جاﺅ لوٹ لو۔
صبح میں نے اسے فون کیا ۔میں جاننا چاہ رہا تھا اس کے لشکری کتنا مال غنیمت لوٹ کر واپس آئے۔اس نے کہا بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعدوہ میرے پاس تھا۔
کچھ لائے رات کو؟
اس مختصر سے سوال نے اس کی آنکھیں نم کر دیں۔اس جیسے بے حس اور کھلنڈرے آدمی کی آنکھوں میں آنسو۔حیرت ہوئی۔اس نے بتایا کہ بہت اچھی چیزیں انتہائی معمولی قیمت پر مل گئی تھیں۔وہ ایک ایک کر کے چیزیں اکٹھی کرتا جا رہا تھا اورباوجود اس کے کہ ڈیمانڈ واجبی سی تھی وہ بھاﺅ تاﺅ کرتا جا رہا تھا۔ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ،دوسرے سے تیسرے کمرے میں۔گھر کا مالک اس کے ساتھ تھا۔سارا گھر گھوم پھر لینے کے بعدآ خر میں وہ بچوں کے کمرے میں گیا۔
”آصف!میں جب اس کمرے میں داخل ہواتو بہت قیمتی کھلونے سلیقے سے رکھے دیکھے۔ایک پیاری سی گڑیا ،دو تین ڈال ہاﺅس،چھوٹا سا ایک کڈ بیڈ ،اور بہت سارے کھلونے تھے۔میں بہت خوش ہوا کہ چلو بچوں کے لیے بہت مناسب چیزیں مل گئی ہیں“وہ بول رہا تھا لیکن اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔” پھر میری نظر صاحب خانہ کی بیٹیوں پر پڑی۔یہی کچھ چار پانچ سال کی ہوں گی۔متانت اور وقار سے دیوار سے ٹیک لگائے وہ اپنے کھلونوں اور دوسری چیزوں کو تکے جا رہی تھیں۔آصف!تم یقین کرو وہ لمحہ میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا ۔بس وہ چپ چاپ اپنی چیزوں کو تکے جا رہی تھیں۔شاید انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کی جدائی پر دکھی ہونا ہے۔شاید انہیں پتا چل گیا تھا کہ ترکی پہنچتے ہی ان کے والد کو جیل میں ڈال دیا جائے گا“۔
پھر تم نے کیا کیا؟
مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ۔میں نے بھاﺅ تاﺅ کو ایک طرف رکھ دیا۔میں نے کہا بھائی جان مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔میں نے بچوں کے اس کمرے کی ایک ایک چیز خریدنا ہے۔آپ قیمت بتاﺅ۔
پھر کیا ہوا؟۔۔میرا تجسس بڑھ رہا تھا۔
اس نے قیمت بتائی۔میں نے ادا کر دی۔
پھر؟
”میں نے ان سے ترکی میں ان کا ایڈریس باتوں باتوں میں لکھ کر رکھ لیا ہے۔آج میرے لڑکے جائیں گے۔بچوں کا سارا سامان پیک کر لیں گے۔لیکن پیک کر کے وہ یہ سامان میرے گھر نہیں لائیں گے۔یہ سامان ترکی بھیج دیا جائے گا۔وہاں سے میرے دوست اسے ریسیو کریں گے اور ان کے گھر پہنچا دیا جائے۔ان بچوں کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ ایک پاکستانی نے ترک بیٹیوں کے کھلونوں کو نیلام نہیں ہونے دیا تھا“
فیصل کے بارے میں میری رائے درست ثابت ہوئی۔وہ کبھی بھی ایک اچھا مسلمان نہیں رہا تھا۔اب کی بار بھی ویسا ہی نکلا۔یہودی ایجنٹوں سے لوٹا مال غنیمت واپس کر آیا۔
شام ڈھلے فیصل کا فون آیا۔وہ ایک لشکری تھا جو مال غنیمت لوٹنے کو تیار بیٹھا تھا۔
اس نے بتایا کہ کچھ ترک اساتذہ ڈی پورٹ ہو رہے ہیں،ان کے پاس وقت بہت کم ہے ، وہ اپنا سازو سامان اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں،ایسے مواقع بار بار نہیں آتے ،اچھا سامان بہت سستا مل جائے گا،یوں سمجھیے مفت ہی میں مل جائے گا،ترک اساتذہ کے پاس بھاﺅ تاﺅ کا وقت نہیں ہے، حقیقی لوٹ سیل لگی ہے،تم بھی آ جاﺅ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی ترنگ میں بولتا چلا گیا ۔وہ ہے ہی ایسا ۔تفکرات سے نیاز ،لا ابالی سا نوجوان۔اسے صرف قہقہے بکھیرنا اور یاروں کی محفلیں آباد کرنا آتا ہے۔یہ قہقہے بسا اوقات دوسروں کے لیے کتنے تکلیف دہ ہو سکتے ہیںاسے اس کا احساس کبھی نہیں ہوا۔ اداسی کی ایک لہر میرے وجود میں اتر گئی۔انہی اداس لمحوں کے زیر اثر میں نے رات پوسٹ کی کہ اے فرزندان حق ! مال غنیمت بٹ رہا ہے ،جاﺅ لوٹ لو۔
صبح میں نے اسے فون کیا ۔میں جاننا چاہ رہا تھا اس کے لشکری کتنا مال غنیمت لوٹ کر واپس آئے۔اس نے کہا بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعدوہ میرے پاس تھا۔
کچھ لائے رات کو؟
اس مختصر سے سوال نے اس کی آنکھیں نم کر دیں۔اس جیسے بے حس اور کھلنڈرے آدمی کی آنکھوں میں آنسو۔حیرت ہوئی۔اس نے بتایا کہ بہت اچھی چیزیں انتہائی معمولی قیمت پر مل گئی تھیں۔وہ ایک ایک کر کے چیزیں اکٹھی کرتا جا رہا تھا اورباوجود اس کے کہ ڈیمانڈ واجبی سی تھی وہ بھاﺅ تاﺅ کرتا جا رہا تھا۔ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ،دوسرے سے تیسرے کمرے میں۔گھر کا مالک اس کے ساتھ تھا۔سارا گھر گھوم پھر لینے کے بعدآ خر میں وہ بچوں کے کمرے میں گیا۔
”آصف!میں جب اس کمرے میں داخل ہواتو بہت قیمتی کھلونے سلیقے سے رکھے دیکھے۔ایک پیاری سی گڑیا ،دو تین ڈال ہاﺅس،چھوٹا سا ایک کڈ بیڈ ،اور بہت سارے کھلونے تھے۔میں بہت خوش ہوا کہ چلو بچوں کے لیے بہت مناسب چیزیں مل گئی ہیں“وہ بول رہا تھا لیکن اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔” پھر میری نظر صاحب خانہ کی بیٹیوں پر پڑی۔یہی کچھ چار پانچ سال کی ہوں گی۔متانت اور وقار سے دیوار سے ٹیک لگائے وہ اپنے کھلونوں اور دوسری چیزوں کو تکے جا رہی تھیں۔آصف!تم یقین کرو وہ لمحہ میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا ۔بس وہ چپ چاپ اپنی چیزوں کو تکے جا رہی تھیں۔شاید انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کی جدائی پر دکھی ہونا ہے۔شاید انہیں پتا چل گیا تھا کہ ترکی پہنچتے ہی ان کے والد کو جیل میں ڈال دیا جائے گا“۔
پھر تم نے کیا کیا؟
مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ۔میں نے بھاﺅ تاﺅ کو ایک طرف رکھ دیا۔میں نے کہا بھائی جان مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔میں نے بچوں کے اس کمرے کی ایک ایک چیز خریدنا ہے۔آپ قیمت بتاﺅ۔
پھر کیا ہوا؟۔۔میرا تجسس بڑھ رہا تھا۔
اس نے قیمت بتائی۔میں نے ادا کر دی۔
پھر؟
”میں نے ان سے ترکی میں ان کا ایڈریس باتوں باتوں میں لکھ کر رکھ لیا ہے۔آج میرے لڑکے جائیں گے۔بچوں کا سارا سامان پیک کر لیں گے۔لیکن پیک کر کے وہ یہ سامان میرے گھر نہیں لائیں گے۔یہ سامان ترکی بھیج دیا جائے گا۔وہاں سے میرے دوست اسے ریسیو کریں گے اور ان کے گھر پہنچا دیا جائے۔ان بچوں کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ ایک پاکستانی نے ترک بیٹیوں کے کھلونوں کو نیلام نہیں ہونے دیا تھا“
فیصل کے بارے میں میری رائے درست ثابت ہوئی۔وہ کبھی بھی ایک اچھا مسلمان نہیں رہا تھا۔اب کی بار بھی ویسا ہی نکلا۔یہودی ایجنٹوں سے لوٹا مال غنیمت واپس کر آیا۔