ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ہم ترا ذکرِ طرحدار لکھا کرتے تھے
کوئی روکے تو بتکرار لکھا کرتے تھے
پندِ ناصح جو کہیں لکھا نظر آ جائے
نام تیرا وہیں سو بار لکھا کرتے تھے
محضرِ جرمِ وفا پر بخطِ رسم ِ جلی
برملا کلمۂ اقرار لکھا کرتے تھے
فردِ تکفیر ہمیں ملتی تھی جس کاغذ پر
ہم اُسی پر ترے اشعار لکھا کرتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا کچھ لب و عارض کے سوا
دل کے زخموں کو بھی گلنار لکھا کرتے تھے
چشمِ سادہ کو بہم آئی تھی وہ خوش نظری
ہم تو صحرا کو بھی گلزار لکھا کرتے تھے
شبِ تیرہ کے اُلجھتے ہوئے پیچ و خم کو
سایہ ٔ گیسوئے خم دار لکھا کرتے تھے
طفلِ مکتب تھے ، دوانے تھے کہ ہم فرزانے
دل کی باتیں سر دیوار لکھا کرتے تھے
مختصر یہ کہ جو لکھتے تھے لہو سے اپنے
لوگ کہتے ہیں کہ بیکار لکھا کرتے تھے
معتبر ٹھہرے وہی حرفِ ضرورت کہ جنہیں
لکھنے والے سرِ دربار لکھا کرتے تھے
۔
جانے کس شہرِ خموشی میں ہوئے خوابیدہ
جو سخن خامہء بیدار لکھا کرتے تھے
مر گئے کب کے وہ دل میں لئے امید ِ جواب
خط مسیحا کو جو بیمار لکھا کرتے تھے
ڈر رہے ہیں اب اُسی عہدِ ترقی سے ظہیرؔ
جس کی آمد کے ہم آثار لکھا کرتے تھے
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۹
کوئی روکے تو بتکرار لکھا کرتے تھے
پندِ ناصح جو کہیں لکھا نظر آ جائے
نام تیرا وہیں سو بار لکھا کرتے تھے
محضرِ جرمِ وفا پر بخطِ رسم ِ جلی
برملا کلمۂ اقرار لکھا کرتے تھے
فردِ تکفیر ہمیں ملتی تھی جس کاغذ پر
ہم اُسی پر ترے اشعار لکھا کرتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا کچھ لب و عارض کے سوا
دل کے زخموں کو بھی گلنار لکھا کرتے تھے
چشمِ سادہ کو بہم آئی تھی وہ خوش نظری
ہم تو صحرا کو بھی گلزار لکھا کرتے تھے
شبِ تیرہ کے اُلجھتے ہوئے پیچ و خم کو
سایہ ٔ گیسوئے خم دار لکھا کرتے تھے
طفلِ مکتب تھے ، دوانے تھے کہ ہم فرزانے
دل کی باتیں سر دیوار لکھا کرتے تھے
مختصر یہ کہ جو لکھتے تھے لہو سے اپنے
لوگ کہتے ہیں کہ بیکار لکھا کرتے تھے
معتبر ٹھہرے وہی حرفِ ضرورت کہ جنہیں
لکھنے والے سرِ دربار لکھا کرتے تھے
۔
جانے کس شہرِ خموشی میں ہوئے خوابیدہ
جو سخن خامہء بیدار لکھا کرتے تھے
مر گئے کب کے وہ دل میں لئے امید ِ جواب
خط مسیحا کو جو بیمار لکھا کرتے تھے
ڈر رہے ہیں اب اُسی عہدِ ترقی سے ظہیرؔ
جس کی آمد کے ہم آثار لکھا کرتے تھے
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۹