محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
ہم تُم تمام شُد تو محبّت تمام شُد
حیرت کدہِ عشق سے ،حیرت تمام شُد
اڑنا سیکھا دیا ہے تمہارے جمال نے
اب تنگیِ خیال کی فُرصت تمام شُد
اشکوں پہ منحصر ہے وہ کُچھ کہہ سکیں اگر
مجھ میں تو عرضِ حال کی ہمت تمام شُد
اخبار نہ ہوا کوئی کشکول ہو گیا
پیسے مِلے تو عجزِ صحافت تمام شُد
جاتا ہوں اُس گلی میں مُجھے روک کر دِکھا
اے ہجر آج سے تری بیعت ، تمام ُشد
ایسا نہ ہو خدا سے جب اپنا حساب لُوں
تب یہ پتہ چلے کہ قیامت تمام شُد
للکارتا ہوں چاروں طرف دشمنوں کو مَیں
نرغے میں گِھر گیا ہوں تو دہشت تمام شُد
عورت کی ننگی لاش تھی ڈھانپی نہیں گئی
عُریاں بدن کو دیکھ کے ، غیرت تمام شُد
اُس نے کہا کہ جا ! مَیں اُٹھا، اور دِیا بُجھا
جو رَہ گئی تھی باقی وُہ عزّت تمام شُد
ہکلا رہا تھا دیکھ کے ظلم و ستم کو مَیں
چیختا ہوں اتنے زور سے ، لُکنت تمام شُد
بیٹے نے میرے بعد وصیّت مری پڑھی
"اک خوابِ لامکاں پہ وراثت تمام شُد"
جاتا ہوں دشمنوں کی طرف ڈھونڈنے اُسے
ہے شہرِ دوستاں میں مروّت تمام شُد
سر پر خود آ گِرا ہے کرائے کا یہ مکان
لگتا ہے اب مکینوں کی غُربت تمام شُد
روتی ہزار سال طبیعت مری مگر
دو چار آنسووں سے مصیبت تمام شُد
صدیاں گُزر گئی ہیں ترے انتظار میں
اے مرگِ ناگہاں ! مری طاقت تمام شُد
جب مَیں نے ڈھال پھینک دی دستِ یقین سے
تُم کہہ رہے ہو دورِ شہادت تمام شُد
سائے پہ کیا غرور کرے کوئی دوستو
سُورج ہوا غروب تو قامت تمام شُد
رفیع رضا
حیرت کدہِ عشق سے ،حیرت تمام شُد
اڑنا سیکھا دیا ہے تمہارے جمال نے
اب تنگیِ خیال کی فُرصت تمام شُد
اشکوں پہ منحصر ہے وہ کُچھ کہہ سکیں اگر
مجھ میں تو عرضِ حال کی ہمت تمام شُد
اخبار نہ ہوا کوئی کشکول ہو گیا
پیسے مِلے تو عجزِ صحافت تمام شُد
جاتا ہوں اُس گلی میں مُجھے روک کر دِکھا
اے ہجر آج سے تری بیعت ، تمام ُشد
ایسا نہ ہو خدا سے جب اپنا حساب لُوں
تب یہ پتہ چلے کہ قیامت تمام شُد
للکارتا ہوں چاروں طرف دشمنوں کو مَیں
نرغے میں گِھر گیا ہوں تو دہشت تمام شُد
عورت کی ننگی لاش تھی ڈھانپی نہیں گئی
عُریاں بدن کو دیکھ کے ، غیرت تمام شُد
اُس نے کہا کہ جا ! مَیں اُٹھا، اور دِیا بُجھا
جو رَہ گئی تھی باقی وُہ عزّت تمام شُد
ہکلا رہا تھا دیکھ کے ظلم و ستم کو مَیں
چیختا ہوں اتنے زور سے ، لُکنت تمام شُد
بیٹے نے میرے بعد وصیّت مری پڑھی
"اک خوابِ لامکاں پہ وراثت تمام شُد"
جاتا ہوں دشمنوں کی طرف ڈھونڈنے اُسے
ہے شہرِ دوستاں میں مروّت تمام شُد
سر پر خود آ گِرا ہے کرائے کا یہ مکان
لگتا ہے اب مکینوں کی غُربت تمام شُد
روتی ہزار سال طبیعت مری مگر
دو چار آنسووں سے مصیبت تمام شُد
صدیاں گُزر گئی ہیں ترے انتظار میں
اے مرگِ ناگہاں ! مری طاقت تمام شُد
جب مَیں نے ڈھال پھینک دی دستِ یقین سے
تُم کہہ رہے ہو دورِ شہادت تمام شُد
سائے پہ کیا غرور کرے کوئی دوستو
سُورج ہوا غروب تو قامت تمام شُد
رفیع رضا