مومن ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا ۔ مومن

فرخ منظور

لائبریرین
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئ بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا

(حکیم مومن خان مومن)
 

فرخ منظور

لائبریرین

بہت شکریہ ملائکہ! ایک مدّت سے اس غزل کی تلاش میں تھا۔ آج ہاتھ آئی۔ صرف اس کا مقطع میرے ذہن میں رہ گیا تھا جو میں نے کبھی لڑکپن میں پڑھا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجلسِ ترقی ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ مومن جو میرے پاس ہے اس میں مومن کا بہت سا کلام موجود نہیں۔ یہ ایک اور کلیات سے ہاتھ لگی ہے۔
:)
 
عجیب بات یہ ہے کہ مجلسِ ترقی ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ مومن جو میرے پاس ہے اس میں مومن کا بہت سا کلام موجود نہیں۔ یہ ایک اور کلیات سے ہاتھ لگی ہے۔
سخنور جی! مجلسِ ترقی ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ مومن (مرتب: کلبِ علی خاں فائق) جو شہزاد احمد کی نگرانی میں شائع ہوئی ہے۔ صفحہ نمبر 84 پر یہ غزل نمبر 56 جو 14 اشعار پر مشتمل ہے‘ موجود ہے۔ یہ کلیات مارچ 2008 میں شائع ہوئی ہے۔
آپ کے پاس شاید پہلا ایڈیشن ہوگا جو 1964 میں شایع ہوا تھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
عجیب بات یہ ہے کہ مجلسِ ترقی ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ مومن جو میرے پاس ہے اس میں مومن کا بہت سا کلام موجود نہیں۔ یہ ایک اور کلیات سے ہاتھ لگی ہے۔
سخنور جی! مجلسِ ترقی ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ مومن (مرتب: کلبِ علی خاں فائق) جو شہزاد احمد کی نگرانی میں شائع ہوئی ہے۔ صفحہ نمبر 84 پر یہ غزل نمبر 56 جو 14 اشعار پر مشتمل ہے‘ موجود ہے۔ یہ کلیات مارچ 2008 میں شائع ہوئی ہے۔
آپ کے پاس شاید پہلا ایڈیشن ہوگا جو 1964 میں شایع ہوا تھا۔

بہت شکریہ میرے پاس دونوں ایڈیشن ہیں۔ اب آپ نے صفحہ نمبر بتایا تو سامنے ہی یہ غزل نظر آگئی۔ عجیب بات ہے۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
عمران صاحب مومن کا یہ شعر بھی مجھے نہیں ملا۔ اگر آپ کچھ مدد کر سکیں تو عین نوازش ہوگی۔

کل جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے

 

مقدس

لائبریرین
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا

ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اس کے
کیونکر لب قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غم غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا


اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارہ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا


اچھی مری بدنامی تھی یا تری رسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامال جفا ہوتا


دیوانے کے ہاتھ آیا کب بند قبا اس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا


ہم بندگئی بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا
 

انتہا

محفلین
مومن کی کلیات(ٹیکسٹ یا اسکیننگ) کسی لنک پر موجود ہے؟ یا ان کا کچھ کلام مل سکتا ہو؟
 

Saraah

محفلین
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئی بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا

(حکیم مومن خان مومن)

آہااااااا
جھوم جھوم اٹھی ہوں
اشعار ہیں کہ پڑھتی جا رہی ہوں
سر ہے کے دھنتی جا رہی ہوں
جیئیں سخنور ہزاروں سال جئییں :)
 

کاشفی

محفلین
بہت خوب جناب سخنور فرخ منظور صاحب! بہت شکریہ۔۔ بہت ہی عمدہ کلام پڑھنے کو دیا ہے آپ نے۔۔۔ خوش رہیں۔۔۔۔
 
Top