محمد علم اللہ
محفلین
ہم جو ہوئے بیمار
محمد علم اللہ اصلاحی
ہسپتال جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے مریض ہوتے ہیں وہاں؟ اور ان مریضوں کی تشویش ناک اور کرب ناک حالت کو دیکھ کراور ان کے امراض کے متعلق جان کر، خود کو لاحق تکلیف یا مرض بہت چھوٹا نظر آنے لگتا ہے ۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔گذشتہ دنوں اچانک پیٹ میں درد کی شدید لہر اٹھی، اور یہ سلسلہ اتنا زیادہ بڑھا کہ یوں محسوس ہونے لگا گویا اب موت ہی آنے کو ہے۔ ایسے میں میں ایک دوست کو بدقت تمام فون پر خبرہی دے سکا اور کچھہی دیر بعد میں اسپتال میں تھا ۔ پہنچتے ہی انجکشن، درد کم کرنے کی دوا اورساتھ ہی گلوکوز چڑھایا گیا ۔ الٹراساؤنڈ، ایکسرے، خون اور پیشاب کے ٹیسٹ ، الغرض ہر قسم کی تشخیص اور چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ساری چیزیں نارمل ہیں، لیکن چونکہ انسان فطرتاَ بڑا ہی متجسس اور خوف زدہ پیدا کیا گیا ہے سو فکر اور پریشانی دامن گیر ہی رہی، ویسے بھی یہ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ تکلیف میں زندگی گزارے یا اس کا ایک پل بھی دکھ میں بسر ہو۔ بھلا میں کیوں اس سے مستثنیٰ رہتا؟محمد علم اللہ اصلاحی
اسی تشویش میں ہی شاید!جب مجھے کوئی خاص افاقہ محسوس نہ ہوا تو میں نے دوستوں کوایک دوسرے اسپتال لے جانے کے لئے کہا۔ وہاں بھی یہی سب کچھ ہُوا، سارے ٹیسٹ دکھائے، لیکن ڈاکٹروں نے کہا: ”کسی دوسرے اسپتال کی رپورٹ کو ہم نہیں مانتے، کراس چیکنگ کرانی پڑے گی۔“اور یوں کراس چیکنگ ہوئی، مگر یہاں بھی خداوند قدوس کی مہربانیوں سے ٹسٹوں کےنتائج منفی ہی رہے۔ ادھر میری تکلیف کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر مزید کچھ دن اسپتال میں روکنا چاہ رہے تھے، لیکن چونکہ انجکشن اور دواؤں کی وجہ سے مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی تھی، جیب کا بھی خیال آتا تھا اس لئے دوستوں کے مشورے سےچھٹی کراکر واپس اپنے کمرے لوٹ آیا، اس وقت رات کے تقریبا تین بج رہے تھے ۔
مجھے نیند بالکل بھی نہیں آ رہی تھی ،جانے کیا کچھ یاد آرہا تھا ۔ایک مرتبہ پہلے بھی مجھے ایسے ہی درد کی شکایت ہوئی تھی ،جاڑوں کے دن تھے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا اور مجھے سچ مچ اپنی موت سامنے نظر آنے لگی تھی ۔میں نے سوچا تھا دن میں لوگوں کو لاش نکالنے میں دقت ہوگی دروازہ کھول دوں ،اور دروازہ کھولنے کے لئے بستر سے جیسے ہی اٹھا ،چٹخنی کھولتے ہی درد سے بے تاب ہوکر بے ہوش ہو چکا تھا ۔اس وقت بھی ہاسٹل میں کافی بھگدڑ مچ گئی تھی اور دوست مجھے اٹھا پٹھا کر فورا اسپتال لے گئے تھے ۔گرنے کے سبب سر میں شدید چوٹ آئی تھی اور ٹانکے بھی لگے تھے ۔لیکن خدا کا کرم اس وقت بھی مجھے کچھ نہیں ہوا اور ڈاکٹروں نے چند گھنٹے اسپتال میں رکھنے کے بعد چھٹی دے دی تھی ۔
ایک مرتبہ مجھے دانت میں درد کی شکایت ہوئی تھی ،اس وقت میں بہت چھوٹا تھا ،مجھے یاد آتا ہے ان دنوں میں نانی کے گھر میں تھا ۔امی گھر پر اکیلی تھیں اور میں درد سے پورے بر آمدے میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ماموں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے ۔وہ تمام واقعات یاد آآکر میری پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے ۔رات یوں ہی سوچوں میں گزر گئی ۔صبح ہوئی تو میں نے جامعہ ہیلتھ سینٹر کےایک سینئر ڈاکٹر شریف صاحب سے ملاقات کی اور اپنی اس تکلیف کی وجہ جاننی چاہی۔انھوں نے مجھے اپنے ایک شناسا ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا ۔ جنھوں نے ساری رپورٹیں دیکھیں اور دوائیں چیک کیں اور کہا کہ بیٹا ! کچھ بھی نہیں ہے زیادہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اکثر ایسا ہوجاتا ہے ۔ کچھ پرہیز بتایا دوائیاں لکھیں اور کہا جاؤ آرام کرو ۔
اب درد بھی نہیں ہے اور نہ ہی بخار ۔اب تو طبیعت بالکل بحال ہو چلی ہے ۔پہلے سے زیادہ بھلا چنگا ہوں خدا کا شکر ہے۔تاہم میں سوچ رہا ہوں انسان بھی کتنا بڑا نا شکرا ہے۔ عام دنوں میں اسےاپنے رب کی نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ زندگی کی مصروفیات اس بات کا موقع ہی نہیں دیتیں کہ انسان ذراٹھہر کر اس بارے میں سوچے اور اپنے مالک و خالق کا شکر بجا لائے ، لیکن کسی نعمت میں ذرا سا فرق آ جائے، کوئی عیب یا اچانک کوئی انہونی ہوجائے تو انسان بے چین ہو جاتاہے اور پکار اٹھتا ہے: ”بار الہا!! مدد--“ میں بھی پکار اٹھا تھا: ”خدایا! رحم فرما“ اور آن کی آن میں کتنے احباب جمع ہو گئے تھے۔ کیسے ؟ امی اور ابو پریشان ہو گئے تھے۔امی کو تو کسی نے اطلاع نہیں دی تھی انھوں نے مجھے فون کیا اور کہنے لگی گھبراہٹ ہو رہی تھی اس لئے کال کیا ،میں نے انھیں بتایا نہیں لیکن کیسے وہ جان گئیں ؟کس طرح بار بار احباب کو فون پر ابو کی ہدایات مل رہی تھیں؟ کیسے سب جاننے والے حبیب بیتاب اور پریشان ہوگئے تھے؟۔ میں خود خدا تعالی سے کیا کیا منتیں کر رہا تھا؟، مگر ہائے رے ناشکرے متوحش انسان ! محض دو رکعت شکرانے کی نماز پڑھی اور خوش ہو لیے۔اس موقع سے میں نے دوستوں کو بھی بہت پریشان کیا اور انھوں نے بھی دوستی کا خوب بھرم نبھایا اللہ سب کو نیک بدلہ دے ۔
سوچتا ہوں اتنے اچھے اور اتنے مہرباں دوست ،ماں باپ کی شفقت و محبت ،مجھے میرے جس رب نے سب کچھ تو دیئے ۔ اس رب کا شکر ادا نہ کرنا تو نالائقی ہی ہوگی --- اے اللہ ! میں تیرا عاجز و درماندہ بند ہ ترا شکر ادا کرتا ہوں ۔تو نے مجھے جو بھی دیا بہت اچھا دیا اس کا احساس مجھے اسپتال جانے کے بعد ہوا ۔اسپتال جانے کے بعد سچ مچ یہ پتہ چلا کہ میری بیماری تو کچھ بھی نہیں تھی، بلکہ مجھ سے سیریس اور زیادہ تکالیف میں مبتلا مریضوں کی قطار لگی ہوئی تھی، کسی کا ہاتھ ٹوٹا تھا تو کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی، ایک لڑکی پاٖؤں زمین پر نہیں رکھ پا رہی تھی، اس کا پورا پاٖؤں زخموں سے لتھڑا پڑا تھا اور مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں۔ ایک معصوم بچہ اتنی تیز سانس لے رہا تھا کہ اس کی آواز دوسرے مریضوں کو بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ ایک بوڑھا اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا، پورے اسپتال میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی، ایک طرف خواتین رو رہی ہیں تھیں تو دوسری جانب مرد حضرات مایوس کھڑے تھے ۔ مریضوں کی درد سے بھری چیخ وپکار اور تیمارداروں کی منتیں، بیزار ڈاکٹرز اور شفقت سے بے نیاز نرسوں کی بے حس آنکھیں۔ مہنگی دواؤں کے پرچے ہاتھ میں لیے پریشانی کے عالم میں باہر جاتے لوگ اور باہر سے اپنے پیاروں کو ملنے آنے والے رشتہ داروں کی بھیڑ۔ ایسی عجب سی دنیا تھی کہ الامان و الحفیظ۔
اس بیماری کے دوران میں نے ایک اورچیز بھی محسوس کی وہ یہ کہ مریض سے ہمدردی کا ایک بول بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ،مریض سے کبھی بھی حتی کہ غیر دانستہ طور پر بھی کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہو ۔ ابھی جب یہ بات نکلی تو مجھے یاد آیا جب میں بیمار تھا تو میرے ایک دوست نے مجھے فون کیا اور کہنے لگا : ’’سنا تھا تمہاری طبیعت خراب ہے ۔تم ابھی تک زندہ کیسے ہو مرے کیوں نہیں !‘‘ مجھے اس کی یہ بات بہت بری لگی ۔میں نے یہ بات اس سے نہیں کہی البتہ غصہ سے فون منقطع کردیا،۔اس نے دوبارہ فون کیا لیکن میں نے ریسیو نہیں کیا ۔بعد میں وہی دوست مجھے ہسپتال لے جانے والوں میں تھا اور اسپتال میں دیگر دوستوں کے ساتھ رات بھر موجود رہا ۔ مجھے پتہ ہے اس نے یہ بات مذاق میں کہی تھی اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہے کہ اس کی یہ بات مجھے بری لگی تھی ۔ میں سوچتا ہوں کیا مذاق میں بھی کسی کو ایسا کہنا جائز ہوسکتا ہے؟
رات جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نگاہ گیلری پر پڑی ۔ جو بالکل ویران تھی ۔یہ منظر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میرے کمرے کی گیلری میں کچھ دنوں سے گلہریوں کی آمد نہیں ہوئی اور میں تنہا درو دیوار کو تکتا رہتا ہوں ۔ میں بے تابی سے صبح کا انتظار کرنے لگا لیکن گلہریاں دکھائی نہ دیں ۔ مجھے یاد آیا کہ میں تو کل تک ان گلہریوں کوکوسا کرتا تھا اور جب وہ صبح کے وقت چلانا شروع کرتیں تو مجھے بہت غصہ آتا تھا کہ کم بخت نیند خراب کرنے چلی آتی ہیں ۔انھیں زور زورسےڈانٹتا اور کرسی پٹختے ہوئے دوبارہ دروازہ بند کر سوجاتا اور یوں گلہریاں بھاگ جاتیں ۔شاید ڈر کر ۔۔مجھے احساس ہوا کہ ان کی آواز مجھے اس تنہائی میں کسی کے قرب کا احساس دلا تی تھیں ۔لیکن گلہریاں شاید روٹھ گئی ہیں اس لئے تو اب نہیں آتیں۔
مجھے ایک ترکیب سوجھی ۔بیماری کے ان دنوں میں دوست میرے لیے جو بسکٹ لے کر آئے تھے میں نے ان میں سے دوچار گیلری میں رکھ دئیے۔مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب گلہریوں کو گیلری میں ادھر سے ادھر پھدکتے دیکھا ۔ صبح ان کی آواز سے ہی بیدار ہوا نماز بھی پڑھی اور خوب پڑھائی بھی کی ۔اب میں انھیں ڈانٹتا نہیں ،میں نے ان سے اب دوستی کر لی ہے ۔بہت دنوں سے ایک الارم کلاک خریدنے کاسوچ رہا تھا ۔موبائل والے الارم سے نہیں اٹھ پاتا کئی مرتبہ تو یہ بجتا بھی نہیں ۔لیکن اب اس کی ضرورت نہیں میں نے گلہریوں سے کہہ دیا ہے مجھے روزانہ چیخ چیخ کر جگا دینا تمہیں بسکٹ بھی دوں گا گلہریاں بھی کافی سمجھدار ہیں اپنی ڈیوٹی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں ۔ان کے بدولت جلد اٹھنا بھی نصیب ہو رہا ہے اور صحت بھی اب کافی اچھی اوربہتر ہے ۔
آخری تدوین: