جاسمن

لائبریرین
ہم جیتیں گے۔
زندہ رہنے اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کا حق سب کو حاصل ہے چاہے وہ صحت مند ہو یا کوئی معذور فرد (انھیں ہم خاص افراد کہیں گے)۔کوئی بھی انسانیت سے پیار کرنے والا یہی چاہے گا کہ معاشرے کے تمام خاص افراد زندگی کے دھارے میں ضرور شامل ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ڈھیروں صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب ایک چیز کم یا ختم ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے کسی اور صلاحیت یا طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ زندہ رہنے اور جِدّ وجُہد کرتے رہنے کا جذبہ خاص افراد میں ایسی تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ معذوری کو اپنی مجبوری نہیں بننے دیتے۔اِن خاص افراد میں سے بہت سے لوگ خاص الخاص بن جاتے ہیں- عام افراد کے لیے ہیرو ۔
ایسے ہی ہیرو اور اُن کی کہانیاں ہمارےاِس دھاگے میں شامل ہوں گی۔
اِن کہانیوں میں ویڈیوز اور تصاویر بھی ہوسکتی ہیں لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مکمل کہانی شامل کر سکیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
فلسطینی صابر الاشقر
18 اکتوبر 2018
وہ کئی سال قبل اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگیا تھا مگر اس کے باوجود اس نے محاذ جنگ نہیں چھوڑا ۔بالآخر بزدل صہیونی درندروں‌ نے اسے گولیاں مار کر شہید کردیا۔

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں محاذ پر موجود ایک معذور فلسطینی کی وہیل چیئر پر لی گئی تصویرنے پیرس میں ہونے والے ایک تصویری مقابلے میں عالمی ایواڈ جیت لیا۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فرانس میں محاذ جنگ کی کوریج کرنے والے نامہ نگاروں کی لی گئی تصاویر کا مقابلہ منعقد کرایا گیا۔ "بایو کالفاڈوس" نامی اس انعامی مقابلے میں فلسطینی فوٹو گرافر محمود الھمص کی لی گئی تصویر کو بہترین تصویر قرار دیا گیا۔ اس تصویر میں غزہ کی مشرقی سرحد پر موجود ایک مظاہرے کے دوران معذور فلسطینی صابر الاشقر کوغلیل کی مدد سے قابض صہیونی فوج پر سنگ باری کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
معذور فلسطینی کی تصویر نے عالمی ایوارڈ جیت لیا
 

جاسمن

لائبریرین
17 مئی 2018
پاکستان کے پہلے نابینا جج
images — Postimage.org
اکستان کی عدالتی تاریخ کے پہلے قوت بینائی سے محروم سول جج سلیم یوسف نے تربیتی ڈیوٹی کا آغاز کر دیا ہے۔

ان کی پہلی تعینات جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میں ہوئی ہے جہاں انہوں نے سینئر جج کی عدالت میں ان کی سرپرستی میں مختلف مقدمات سنے۔ سول جج سلیم یوسف آئندہ ماہ آزاد حیثیت سے سول عدالت میں مقدمات کی سماعت شروع کریں گے موجودہ کیسوں کی سماعت عملی تربیت کا حصہ ہے۔سلیم یوسف نے لاہور کے رہائشی ہیں اور پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہیں۔

سلیم یوسف نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کے امتحانات میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ 3 سال بعد یوسف سلیم نے سول جج کا امتحان دیا اور پہلے نمبر پر رہے لیکن نابینا ہونے کی وجہ سے انٹرویو میں رہ گئے۔ سال بعد یوسف سلیم نے سول جج کا امتحان دیا اور ساڑھے چھ ہزار امیدواروں میں پہلے نمبر پر رہے لیکن نابینا ہونے کی وجہ سے انٹرویو میں رہ گئے۔
تاہم چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے لاہور ہائیکورٹ کو یوسف سلیم کا انٹرویو دوبارہ لینے کا حکم دے دیا۔یاد رہے کہ نابینا وکیل سلیم کو سیلیکشن کمیٹی نے سول جج کے عہدے کے لیے مسترد کردیا تھا۔راولپنڈی کے سینئر وکلا نے سلیم یوسف کو مقدمات کی سماعت کے دوران مختلف آبزرویشنز پر ستائش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عدلیہ میں بہترین اضافہ قرار دیا ہے۔
ان کی چار میں سے دو بہنیں بھی نابینا ہیں۔
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
6DF3AF64-556D-407F-BE35-95C8016E300B_w1023_r1_s.jpg

محمد عاقب کراچی کے علاقے منظور کالونی کا رہائشی ہے۔ عمر 24سال ہے مگر قد نہایت چھوٹا ہے جبکہ ہاتھ پاوٴں بھی غیر معمولی طور پر چھوٹے اور قدرتی طور پر مڑے ہوئے ہیں۔

عاقب کہتا ہے کہ وہ ایک ایسی ’پر اسرار بیماری‘ میں مبتلا ہے جس کا کم ازکم پاکستان میں کوئی علاج نہیں ۔ اس کے سات بہن بھائی ہیں جن میں سے اس سمیت تین بھائی پیدائشی طور پر اسی ’پراسرار بیماری‘ میں مبتلا ہیں۔

اس تمام صورتحال کے باوجود عاقب با ہمت اور حوصلے سے معذوری کو شکست دے رہا ہے۔ وہ اپنے ایک بھائی کے ساتھ پنکچر لگانے کا کام کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ جانوروں کا چارہ بھی بیچتا ہے اور دونوں دکانوں کا حساب کتاب بھی وہ خود ہی سنبھالتا ہے۔

عاقب کرنسی نوٹ گن لیتا ہے، جانوروں کا چارہ بھی تول لیتا ہے۔ وہ موبائل بھی استعمال کرتا ہے اور اس کے سارے فیچرز سے بھی آگاہ ہے۔ عاقب کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ دوسرے تعلیم یافتہ افراد کی طرح پڑھا لکھا نہیں ہے لیکن اسے خود پر فخر ہے۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں افراد سے بہتر ہے کہ جو اپنی معذوری کے آگے مایوس ہوجاتے ہیں اور پھر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
a8863960-302d-4aa4-9131-678d5e4fbfd8_4x3_690x515.jpg

آخری اشاعت: بدھ 25 جمادی الاول 1438ه۔ - 22 فروری 2017م KSA 08:06 - GMT 05:06
ہاتھ پاؤں سے معذور مصری بچہ بوتلوں سے مدد لینے پر مجبور
زیاد محمد کے علاج پر 30 لاکھ مصری پونڈ کی لاگت پر والدین پریشان
بدھ 25 جمادی الاول 1438ه۔ - 22 فروری 2017م
af50aedf-e27d-484e-b64c-af45048df48d_16x9_600x338.jpg

مصر میں ایک گیارہ سالہ بچہ پیدائشی طور پر دونوں بازوں اور ٹانگوں سے محروم ہونے کے باعث حقیقی معنوں میں ایک المیے سے دوچار ہے، مگر اس نے زندگی جینے کے لیے اپنی معذوری کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس نے یہ مشکل چیلنج بھی قبول کرتے ہوئے ایک ایسا حل نکالا ہے جس کی مدد سے وہ نہ صرف خود کھانا کھا سکتا ہے بلکہ وہ لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق گیارہ سالہ زیاد محمد احمد محمد مشرقی گورنری کے بنی صدر قصبے کا رہائشی ہے۔ وہ پیدائشی دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے بغیر پیدا ہوا۔ مگر اس معذوری کے علی الرغم وہ کسی کی معاونت کے بغیر خود سے کھا پی سکتا ہے۔ معذور بچے کے والد نے اس کے لیے ایک ایسا حل نکالا ہے۔ اس نے پلاسٹک کی خالی بوتلوں کو اس کے کندھوں کے ساتھ اس طرح جوڑا کہ ان کی مدد سے بچہ چمچ کے ذریعے کھانا کھا سکتا ہے۔
e0dc9e39-dbc5-443a-9847-d5e3fad2c15b_4x3_690x515.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ ان سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ آمین!
خاص طور پہ زیاد محمد کے لیے اللہ بہت اچھا انتظام کرے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
سرمد طارق
140430225608-sarmad-tariq-624x351-afp.jpg

پاکستان کے پہلے معذور ایتھلیٹ اور کہانی گو تھے۔ اور انہوں نے کھیل کی دنیا میں بہت سے ریکارڈ قائم کیے ۔

حالات زندگی
سرمد طارق 17 دسمبر 1975ء میں پیدا ہوئے۔ 15 برس کی عمر میں سوئمنگ کرتے ہوئے ایک ڈائیونگ حادثے میں سرمد طارق دونوں بازو اور دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئے تھے۔ اور تمام زندگی وہیل چئیر پر گزری۔ اسی وجہ سے ان کے عزیز و اقارب ان کو ’چیئرمین‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

اعزازات اور ریکارڈ
انہیں 2005 میں پاکستان کے پہلے لاہور میراتھن میں واحد وہیل چیئر ایتھلیٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سنہ 2005 میں آئی این جی نیو یارک شہر میراتھن میں پاکستان کی نمائندگی کی اور تمغا حاصل کیا۔
سرمد نے معذور افراد کی جانب سے بغیر رکے سب سے لمبے فاصلے تک گاڑی چلانے کا بھی ریکارڈ قائم کیا جب انہوں نے 33 گھنٹے مسلسل گاڑی چلائی اور خیبر سے کراچی تک کا 1847 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔
وفات
سرمد طارق طویل علالت کے بعد 30 اپریل 2014 کو وہ انتقال کر گئے۔
سرمد طارق - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
چیئرمین‘ کے نام سے مشہور سرمد شادی شدہ تھے اور اسلام آباد میں رہتے تھے ۔

سرمد کئی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ان کی حالت خراب تھی اور ان کا علاج جاری تھا۔

اپنے آخری بلاگ میں سرمد طارق نے لکھا ’اے اللہ میں اس وقت اتنی بیماریوں میں مبتلا ہوں کہ ایک آدمی اتنی بیماریوں کا تلفظ بھی نہیں جانتا ہو گا۔

پچھلے ماہ ہی مجھے دو بار ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں میرا بلڈ پریشر 50/20 تک گرا اور پھر 200/140 تک جا پہنچا۔‘

اپنے بلاگ میں انہوں نے مزید لکھا ’اتنی تکالیف سہنے کے بعد بھی میں شکایت نہیں کر رہا اور ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ہوں۔‘

سرمد طارق نے 23 سال کی عمر میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملاممت اختیار کی تھی۔

پاکستان کے پہلے معذور ایتھلیٹ، کہانی گو سرمد طارق انتقال کرگئے
 
آخری تدوین:
پہاڑ کی چوٹی کی طر ف دیکھنا اور اس چوٹی پر چڑھنے کے بارے میں سوچنا بہت سے لوگوں کے لیے پریشان کُن ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی نابینا انسان پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائے تو یہ ایک حیران کُن بات ہے۔

665279_6640453_88_updates.jpg

45 سالہ زرینہ حسن پاکستان کی ایک نابینا ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کوہِ پیما اور مصورہ بھی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں کے علاوہ ہنزہ اور اسکردو کے پہاڑوں کو بھی سر کیا ہے۔
زرینہ حسن نے امپیریل کالج سے سالماتی حیاتیات(Molecular Biology) اور وائرسوں کے پیتھالوجی (Viruses Of Pathology ) میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ، ڈاکٹر ہونے کے ساتھ زرینہ حسن تین بچوں کی والدہ بھی ہیں۔
2015 میں گلوکوما (Glaucoma) کے مرض کی وجہ سے زرینہ حسن بینائی سے محروم ہوگئی تھیں لیکن انہوں نے اپنی محرومی کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنایا۔
زرینہ حسن نے نابینا ہونے کے باوجود ایسے ایسے کام کیے جو ہربینا اور نابینا کے لیے مثال ہیں، انہوں نے اپنی زندگی کے ہر شوق کو پورا کیا۔
انہوں نے پہاڑ پر چڑھنے کے ساتھ ساتھ پینٹنگ کے فن کو بھی برقرار رکھا، زرینہ حسن کا کہنا ہے کہ ’بےشک میں اپنی آنکھوں سے دنیا کے خوبصورت رنگ نہیں دیکھ سکتی، لیکن پینٹنگ کر کے میں اپنے دِل کی آنکھوں سے زندگی کے ہر اس حسین منظر کو دیکھ سکتی ہوں جو باقی سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‘
زرینہ حسن نے کہا کہ ’مجھے یہ ٹیلنٹ میرے خُدا کی طرف سے ملا ہے۔‘
ڈاکٹر زرینہ حسن نے بتایا کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ 10 سال پہلے ہوا، جب مجھے میری بائیں آنکھ سے نظر آنا بند ہوگیا تھا، تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ مجھے گلوکوما (Glaucoma) کا مرض ہے، لیکن 2015 میں میری دائیں آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی اور اس طرح میں دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے حالات میں بھی ہار نہ مانے، وہ ایک بیٹی، بیوی اور ماں ہوتی ہے اسے اپنے ہر فرض کو باخوبی نبھانا چاہیے۔
 

جاسمن

لائبریرین
معذوروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا ‘ شفیق الرحمان
11.02.2016
19041899-101.jpg

پاکستان میں معذور افراد کے لیے خدمات سر انجام دینے والوں میں ایک بڑا نام محمد شفیق الرحمان کا بھی ہے۔ لاہور شہر میں پیدا ہونے والے شفیق الرحمان نے جب ہوش سنبھالا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ چلنے پھرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔
انتالیس سالہ محمد شفیق الرحمان کو اُن کے بچپن میں پولیو کی جو دوا دی گئی تھی اس کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے دوا کا اثر نہ ہو سکا اور وہ معذوری کا شکار ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں، ’’خواہش کے باوجود مجھے عام سکول میں داخل نہیں کروایا گیا۔ میرے والدین کا خیال تھا کہ وہاں بچے میرا مذاق اڑائیں گے اور یوں مجھ میں اعتماد پیدا نہیں ہو سکے گا۔ اس سکول میں، میں رینگ رینگ کر چلتا تھا، میں نے کبھی آسمان نہیں دیکھا تھا۔ مجھے سکول کے برآمدوں میں چلتی ہوئی اپنی ٹیچر کے جوتے اور گھٹنے ہی نظر آتے تھے۔ میں معذوری کی وجہ سے لوگوں کے چہرےآسانی سے نہیں دیکھ پاتا تھا۔"

ماضی کو یاد کرتے ہوئے شفیق کا کہنا تھا، ’’ایک مرتبہ ہمارے سکول میں ایک غیر ملکی خاتون آئیں۔ انہوں نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر پنے ہاتھوں کو ٹشو پیپر سے اچھی طرح صاف کر لیا۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے معذور افراد کی معذوری کو ان کی مجبوری نہیں بننے دوں گا۔‘‘

شفیق الرحمان نے اپنے دیگر معذور دوستوں کو اکھٹا کیا اور مائل سٹون سوسائٹی فار دی سپیشل پرسنز کی بنیاد رکھی۔ لاہور کے لارنس گارڈن میں موجود قائد اعظم لائبریری کے سامنے والے باغیچے کا ایک درخت ان دوستوں کی ملاقات کا مقام طے پایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ میٹنگز ہونے لگیں اور ایک دن ایک بڑے میاں پاس سے گزرے۔ انہوں نے بہت سارے سپیشل پرسنز کو باتیں کرتے دیکھا تو وہ بھی اس محفل میں چلے آئے۔ انہوں نے تنظیم کو رجسٹر کرانے کا مشورہ دیا۔’’ ایک دن پتہ چلا کہ معذور دوستوں کی محفل میں درد دل کے ساتھ شریک ہونے والے یہ بڑے میاں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اور کچھ عرصہ بعد میں نگران وزیر اعظم بن گئے۔ یہ معراج خالد تھے انہوں نے معذورو لوگوں کی بہتری کے لیے ہمارا کافی ساتھ دیا۔‘‘

مائل سٹون سوسائٹی فار دی سپیشل پرسنز پیرالائزڈ لوگوں کو مددگار فراہم کرتا ہے اور وہ لوگ جو معذوری کی وجہ سے زیادہ ہل جل نہیں سکتے، انہیں الیکٹرانک وہیل چئیرز مہیا کرتا ہے۔ شفیق کا ادارہ جاپان اور ترقی یافتہ ملکوں کے فلاحی اداروں کی مدد سے استعمال شدہ الیکٹرانک وہیل چیئرز حاصل کرتا ہے اور ان کی مرمت کے بعد مستحق لوگوں کو فراہم کرتا ہے، اب تک ان کا ادارہ 70 افراد کو ایسی وھیل چیئرز مہیا کر چکا ہے، اس ادارے کی کوشش ہے کہ اگلے سال تک سستی الیکٹرانک وہیل چئیرز کی پاکستان میں تیاری شروع ہو سکے۔ یہ ادارہ پاکستان بیت المال کی مدد سے 85 ہزار مینوئل وھیل چیرز بھی تقسیم کر چکا ہے۔
19041741-101.jpg


شفیق اپنے ساتھیوں کی مدد سے عوامی مقامات کو معذور افراد کے لیئے قابل رسائی بنانے کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں، ان کی کوششوں سے لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے نئے بلڈنگ رولز بنائے ہیں اب تمام نئے منصوبوں میں معذور افراد کے لیئے رستہ رکھا جائے گا۔ اسی طرح سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی اس بات کی منظوری دے دی ہے کہ آئندہ پاکستان میں بننے والے ہر بنک میں معذور افراد کے یئے رستہ رکھا جانا ضروری ہوگا۔ ان کی کوششوں سے پنجاب اسمبلی اور لاہور ھائی کورٹ کو معذور افراد کے لیئے قابل رسائی بنایا جا چکا ہے۔ ان کا ادارہ معذور لوگوں کی آگاہی اور تربیت کے لیئے بھی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

مائل سٹون نامی غیر سرکاری تنظیم کے صدر شفیق نے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں وہ فیلو شپ کورس کے لیے ایک سکالرشپ پر جاپان چلے گئے۔ انہوں نے جاپان میں سپیشل پرسنز کی بہتری کے لیے موجود ماڈلز کو دیکھا اور پاکستان آکر پھر سے اپنے دوستوں کے ساتھ فلاحی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ شفیق ا لرحمان جنیوا میں قائم ورلڈ کانگرس آف ہیومن رائٹس میں معذور افراد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں وہیل چیئر کرکٹ کے بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چار بچوں کے والد شفیق اپنے آپ کو معذور نہیں سمجھتے وہ ایک خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دوسروں کو بھی اپنے آپ سے پیار کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا درس دیتے ہیں۔
19041739-101.jpg

شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ڈس ایبلیٹی ہوتی ہے۔کوئی بھی سو فی صد پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ ان کے بقول سپیشل پرسنز کا ایک خاص لائف سٹائل ہوتا ہے انہیں تعصب کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ ان کے بقول کسی کی معذوری کو اس کا نام بنا دینا بہت ناانصافی ہے۔ اس لیے جب کسی معذور شخص کے نام کے ساتھ گونگا یا بہرا لگایا جاتا ہے تو انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ’’پاکستان بھر میں ہمارے 1800 ارکان ہیں، ہم 152 فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم معذور لوگوں کو پاؤں پر کھڑے ہونا سکھاتے ہیں، یوں سمجھیے ہم انہیں مچھلی نہیں دیتے بلکہ مچھلی پکڑنا سکھاتے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ عطیات، امداد یا خیرات نہیں لیتے۔ بلکہ پروفیشنل کنسلٹنسی فراہم کرتے ہیں اور مختلف عمارتوں کی رسائی کا آڈٹ کرتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے شفیق اور ان کے ساتھی اپنی تنظیم چلا رہے ہیں۔


شفیق الرحمان کو دکھ ہے کہ جس طرح سیاست بوڑھے سیاست دانوں کو ریٹائر کر دیتی ہے اسی طرح پاکستانی معاشرہ بھی معذور لوگوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک معروف کارکن اسرار شاہ جب دہشت گردی کے ایک واقعہ میں معذور ہوگئے تو ان کی اپنی پارٹی نے انہیں فراموش کر دیا۔ ان کے بقول پاکستان کے سرکاری افسروں کو ڈس ایبلیٹی سے منسلک مسائل کا پتہ تک نہیں ہے، ’’میں دعوٰی کرتا ہوں کہ کوئی بیوروکریٹ مجھے بتا دے کہ وہیل چیئر والے ایک شخص کو کموڈ پر کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین سمیت جتنے بڑے بڑے پراجیکٹس بنائے جا رہے ہیں ان میں وہیل چیئر والوں کے لیے راستہ کیوں نہیں بنایا جاتا۔ ہماری کنسٹرکشن کا یہ حال ہے کہ ہم مسجدوں، بینکوں اور ریستورانوں میں صرف اس لیے نہیں جا سکتے کہ وہاں ہمارے لیے کوئی راستہ ہی نہیں بنایا جاتا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے معذور افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کیے تھے لیکن اس بارے میں ملکی صورتحال کی رپورٹ ابھی تک جمع نہیں کروائی جاسکی ہے۔

شفیق ا لرحمان بتاتے ہیں کہ عالمی اعداوشمار کے مطابق دنیا بھر میں 10 سے 15 فی صد لوگ معذوری کا شکار ہیں صرف پاکستان میں ڈس ایبل لوگوں کو قومی ترقی کے عمل میں شامل نہ کیے جانے کی وجہ سے ایک ملین ڈالر روزانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا سرکاری محکمہ نہیں ہے، جو خاص طور پر پاکستان کی معذورآبادی کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہو۔ ان کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی بہبود کے لیے ایک خصوصی کمیشن بنایا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ معذورافراد اور ان کے گھر والوں کی تربیت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں اور جو شخص پیرالائز ہو جاتے ہیں ان کی بہتری اور ان کو جدید وہیل چیئر فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہییں۔’’پاکستان کے معذور افراد پاکستان کی ترقی میں بہت اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگرآپ کو ان کی صلاحیتوں پر یقین نہ آئے تو صرف اولمپکس کے مقابلوں یا دیگر کھیلوں کے نتائج کو ایک نظر دیکھ لیں، معذور افراد کی کامیابیاں کم نہیں ہیں۔
’معذوروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا ‘ شفیق الرحمان | DW | 11.02.2016
 

جاسمن

لائبریرین
یہ ہیں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم پانچ نوجوان دوست جنہوں نے اپنی معذوری کو کمزوری بنانے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنا لیا-

ارسلان، عدنان، شازل، عثمان اور حارث پیدائشی طور پر سننے کی صلاحیت سے محروم تھے اسی لیے وہ کبھی بول بھی نہیں پائے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کی دوستی کرکٹ کے میدان اور خصوصی بچوں کے سکول میں دوران تعلیم پروان چڑھی۔

یہ نوجوان سکول کے بعد ’اسلام آباد ڈیف کرکٹ ایسوسی ایشن‘ (آئی ڈی سی اے) کے زیر اہتمام کرکٹ میچز میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

22 سالہ شازل اب بھی باقاعدگی سے آئی ڈی سی اے کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ تاہم انٹر اور گریجویشن کے بعد ان نوجوانوں کو فکر معاش نے گھیر لیا۔ تاہم ملازمت کے مواقع نہ ملنے پر مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے انہوں نے خود کا کاروبار شروع کرنے کی ٹھانی۔

ان پانچ دوستوں نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین کے کاروباری مرکز میں بائیک کارٹ پر فاسٹ فوڈ کا ڈھابہ لگایا جہاں عثمان، ارسلان اور حارث برگر، شوراما، چپس اور دیگر کھانے پینے کی اشیا تیار کرتے ہیں جب کہ شازل اور عدنان کسٹمرز سے آڈر لیتے ہیں۔

رواں سال ہی گریجویشن مکمل کرنے والے 24 سالہ محمد ارسلان نے اشاروں کی زبان میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بزنس کا خیال حکومت کی جانب سے ہمیں ملازمت کے مواقع فراہم نہ کرنے کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا، ہم پریشان تھے کہ ہم اس معذوری کے ساتھ کیا کریں گے، ہم پیسہ کیسے کما سکتے ہیں۔ پھر بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح ’36 فاسٹ فوڈ مینیا‘ کا وجود عمل میں آیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بزنس خود انحصاری کی جانب ان کا پہلا قدم ہے تاکہ وہ اپنا خرچہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی بھی مدد کر سکیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کو عوام کی جانب سے کیسا ردعمل ملا اور اس میں کیا کیا مشکلات درپیش آئیں تو ارسلان نے بتایا: ’لوگ ہماری جانب اس خصوصیت کی وجہ سے متوجہ ہوئے کیوں کہ ہم اشاروں کی زبان میں آرڈر لے رہے ہیں۔ لوگ اشاروں کی زبان اور خصوصی افراد کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، اس سے ہمیں برابری کا احساس بھی ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی روزانہ آمدنی 15 سو سے چار ہزار کے درمیان ہے اور مہینے بعد وہ مجموعی رقم کو آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔

ارسلان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ یعنی سی ڈی اے حکام بعض اوقات انہیں پریشان کرتے ہیں اس لیے وہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ انہیں کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے اپنے جیسے خصوصی افراد کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت سے امیدیں لگانے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچیں۔
کرکٹ میدان سے فاسٹ فوڈ سٹال تک: پانچ نوجوان دوست جنہوں نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنا لیا
 

جاسمن

لائبریرین

تونس میں 34 سالہ نوجوان ملک کا پہلا نابینا وزیر​

العربیہ ڈاٹ نیٹ – منیہ غانمی​

26 اگست ,2020
تونس میں وزیر اعظم ہشام المشیشی نے ثقافتی امور کی وزارت کا قلم دان سوپنے کے لیے ایک نابینا نوجوان کا انتخاب کیا ہے۔ اس طرح وہ تونس میں حکومتی منصب پر فائز ہونے والا پہلا وزیر ہے جو خصوصی ضروریات کا حامل ہے۔

تونس کی ایک یونیورسٹی کا نمایاں پروفیسر 34 سالہ ولید الزیدی جس نے معذور افراد کی نفسیات میں خصوصی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اپنی پیدائش کے دو سال بعد ہی بینائی سے محروم ہو گیا۔ تاہم اس کمی نے ولید کو اپنی تعلیم کے سفر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے سے نہیں روکا۔ وہ اس سفر میں امتیازی حیثیت سے آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ اپنے ارد گرد موجود نوجوانوں اور معذور افراد کے لیے ایک رول ماڈل بن گیا۔
ولید کے والد کا تعلق تونس کے شہر تاجروین سے ہے۔ دو سال کی عمر میں جب ولید کی بینائی ختم ہوئی تو ولید کے والد اسے لے کر دارالحکومت تونس شہر منتقل ہو گئے۔ یہاں ولید نے نابینا افراد کے انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم کا آغاز کیا۔ ابتدا میں اسے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں بڑی مشکلات کا سامنا رہا تاہم وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھنے پر مصر رہا۔ آخر کار گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ولید منوبہ صوبے میں آداب و فنون کے کالج میں ترجمے اور بلاغت کا نمایاں معلم بن گیا۔ جنوری 2019ء میں ولید نے بلاغت کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔

ولید الزیدی کو اس کی جامعہ میں "تونس کا طہ حسین" کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ولید کی زندگی اور تعلیم کا سفر بڑی حد تک مصری اور عربی ادب کے سرخیل طہ حسین کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ طہ حسین بھی 7 دہائیوں قبل مصر میں وزیر تعلیم کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
واقعی۔۔خدا کی مدد بھی جب ہی ہوتی ہے جب انسان خود کوشش کرتا ہے سب سے پہلی سیڑھی خود کوشش کی ہے ۔ دیکھیں اسی کا اظہار ہم نے اپنی ڈی پی پر کیا ہوا ہے ۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین

پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نے ڈاکٹر بن کر نئی تاریخ رقم کردی۔​


پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل کا کہنا ہے کہ زندگی میں انہوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے، بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا، دنیا والوں کے طعنوں پر والد نے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔
سارہ گل کو پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ اور انہوں نے تمام مسائل اور تکالیف کے باوجود ایم بی بی ایس کیا۔
انہوں نے کالج میں داخلے کے بعد اپنے ہم جماعتیوں کو بتادیا تھا کہ وہ ٹرانسجینڈر ہیں جس پر کلاس میں سب نے سپورٹ کیا۔

سارہ کا کہنا تھاکہ ٹرانسجینڈر کی تعلیم پر کام کرنا چاہتی ہوں، ہم صرف ناچ گانا نہیں کرسکتیں بلکہ بارڈر پر بھی ملک کی خدمت کر سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں پہلی بار خواجہ سرا ایم بی بی ایس میں کامیابی حاصل کرکے ڈاکٹر بن گئی، انہوں نے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے امتحان پاس کیا۔

 
Top