فراز ہم خوابوں کے بیوپاری تھے - فراز

سارہ خان

محفلین
ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی کچھ غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لئے ہیں‌جھولی میں‌اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
جب دھرتی صحرا صحرا تھی ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چُپ تھیں اور سُرسنگیت میں کھوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں کچھ خواب انوکے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کےکچھ بول بہت دیوانوں کے
کچھ نیر و وفا کی شمعوں کے کچھ پاگل پروانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں کچھ گیت شکستہ جانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے خوش ہوکے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری اور نس نس کو زخمایا تھا
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا،کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پرکچھ خاکستر سے گجرے تھے
اور دور اُفق کے ساگر میں کچھ ڈولتے ڈولتے بجرے تھے
اب پاوں کھڑاوں دھول بھری اور تن پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
اب گھاٹ ہے نہ گھر دہلیز ہے نہ در اب پاس رہا کیا ہے بابا
بس اک تن کی گٹھڑی باقی ہے جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی کو چھوڑے جاتے ہیں تو اپنا قرض چکا بابا

فراز
 

نایاب

لائبریرین
ہم خوابوں کے بیوپاری
سب سنگی ساتھی بھید بھرے کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
اب گھاٹ ہے نہ گھر دہلیز ہے نہ در اب پاس رہا کیا ہے بابا

ابن انشاء

السلام علیکم
سارہ بٹیا
ہنستی مسکراتی رہیں آمین
بہت شکریہ شامل محفل کرنے کا
بہت خوب کلام ہے
جناب ابن انشاء ( اللہ غریق رحمت کرے ) کا
نایاب
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت کلام ہے کیا لاجواب نظم ہے!

بہت شکریہ سارہ خان شیئر کرنے کیلیے!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شکریہ محمد بلال اعظم۔۔۔ یہ انداز تو ابن انشاء کا ہی لگتا ہے شاعری کا۔۔ اور ابھی گوگل کیا تو کئی لنکس پر ابن انشاء کے نام سے ہی ہے ۔۔:idontknow:

میں نے اسی لئے احمد فراز کی ویڈیو بھی ساتھ دی ہے، کتاب کا نام مجھے یاد نہیں آ رہا،"شہر سخن آراستہ ہے" میں موجود ہے اور کتاب شاید "خواب گل پریشاں ہے"۔
 
  • ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
    پر اس میں ہوا نقصان بڑا
    کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
    کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
    ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
    اور سر پے ہے ساہوکار کھڑا
    یہاں بوند نہیں ہے دیوے میں
    وہ بھاج بیاج کی بات کرے
    ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
    وہ ڈھور اناج کی بات کرے
    ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
    وہ آج ہی آج کی بات کرے
    جب دھرتی صحرا صحرا تھی
    ہم دریا دریا روئے تھے
    جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
    اور سر سنگیت میں کھوءے تھے
    تب ہم نے جیون کھیتی میں
    کچھ خواب انوکھے بوءے تھے
    کچھ خواب سجل مسکانوں کے
    کچھ بول کبت دیوانوں کے
    کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں
    کچھ گیت شکستہ جانوں کے
    کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
    کچھ پر پاگل پروانوں کے
    پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
    خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
    ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
    اور نس نس کو زخمایا تھا
    اور بھول گئے پچھلی رت میں
    کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
    ہر بار گگن نے وہم دیا
    اب کے برکھا جب آئے گی
    ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
    اور ہر کونپل پھل لائے گی
    سر پر چھایا چھتری ہو گی
    دھوپ گھٹا بن جاءے گی
    جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
    کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
    کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
    کچھ خاتستر سے کجرے تھے
    اور دور افق کے ساگر میں
    کچھ دولتے ڈوبتے بجرےے تھے
    اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
    اور تن پہ جوگ کا چولا ہے
    سب سنگی ساتھی بھید بھرے
    کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
    اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
    ہر اور ٹھگوں کا ٹولہ ہے
    اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
    اب پاس بچا ہے کیا بابا
    بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
    جا یہ بھی تو لے جا بابا
    ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
    تو اپنا قرض چکا بابا
 
بہت خوبصورت نظم ہے۔
لیکن شاعر "ابنِ انشا" نہیں بلکہ "احمد فراز" کی ہے اور کتاب ہے "خوابِ گل پریشاں ہے"۔
یہ لنک دیکھیے
جناب عالی
لہجہ اور انداز ابنِ انشا کا ہے اور جو لنک آپ نے دیا ہے اس نظم اور اس نظم کے متن میں فرق ہے
اور اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اسی بات پر بحث ہو چکی ہے کہ یہ کس کی نظم ہے
اللہ بہتر جانتا ہے
آپ نے فراز کے مجموعہ کلام میں یہ نظم دیکھی ہے؟
اور کیا اس نظم اور فراز کی نظم کے متن میں فرق ہے؟
اس بارے میں بہت ابہام پایا جاتا ہے
رہنمائی فرمائیں تو مشکور ہوں گا
شاد و آباد رہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جناب عالی
لہجہ اور انداز ابنِ انشا کا ہے اور جو لنک آپ نے دیا ہے اس نظم اور اس نظم کے متن میں فرق ہے
اور اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اسی بات پر بحث ہو چکی ہے کہ یہ کس کی نظم ہے
اللہ بہتر جانتا ہے
آپ نے فراز کے مجموعہ کلام میں یہ نظم دیکھی ہے؟
اور کیا اس نظم اور فراز کی نظم کے متن میں فرق ہے؟
اس بارے میں بہت ابہام پایا جاتا ہے
رہنمائی فرمائیں تو مشکور ہوں گا
شاد و آباد رہیں
میرے خیال میں ابہام تو دور ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ فراز نے اپنی نظم ہی پڑھی ہے۔ دونوں نظموں کے الفاظ بھی ایک ہی جیسے ہیں اور میرے پاس جو "خوابِ گل پریشاں ہے" ہے، اُس کے صفحہ 117 پہ یہی نظم بعینہٖ موجود ہے۔
 
میرے خیال میں ابہام تو دور ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ فراز نے اپنی نظم ہی پڑھی ہے۔ دونوں نظموں کے الفاظ بھی ایک ہی جیسے ہیں اور میرے پاس جو "خوابِ گل پریشاں ہے" ہے، اُس کے صفحہ 117 پہ یہی نظم بعینہٖ موجود ہے۔
رہنمائی کا بہت بہت شکریہ
شاد و آباد رہیں
 
Top