ہم دل والے

پلکوں سے موتی چنتے ہیں
ہم یوں خواب اکثر بنتے ہیں

غم ہوں تو ہم خوش رہتے ہیں
خوشیاں مشکل سے سہتے ہیں

ہم قطرے میں دریا ڈهونڈیں
اور ساگر سے ناراضی ہے
محرم کو مجرم ٹهہرائیں
نامحرم اپنا قاضی ہے

حیراں کن اپنی منطق ہے
کوا رنگوں کا عاشق ہے

بلبل جب گانا گاتی ہے
عاشق ہی کو بہلاتی ہے

جاناں کے چہرے پر خوشیاں
جب رقاصائیں بنتی ہیں
تب خوشبوئیں اس منظر کو
رنگوں کی صورت جنتی ہیں
تب جا کر پیدا ہوتی ہیں
کلیاں ، جو عمدہ ہوتی ہیں

بادل کچه کهویا کرتے ہیں
ورنہ کیوں رویا کرتے ہیں ؟

اک دن اک عاشق نے گل کو
کچه یوں نرمی سے چوما تها
بےخود ہو کر پهر گهنٹوں وہ
مستی میں آ کر جهوما تها
تب سے ہم سنتے رہتے ہیں
پهولوں کو نازک کہتے ہیں

ہم بس جهونکے سے ڈرتے ہیں
طوفاں سے کهیلا کرتے ہیں

ہم عشق لاحاصل والے
ہم ساگر بن ساحل والے
نوشی ! گمشدہ منزل والے
کنتے پاگل ہیں دل والے .
 
Top