محمد ریحان قریشی
محفلین
خامشی میں بھی نمایاں ہے جو ہے اظہار میں
کچھ کہیں یا چپ رہیں الجھے ہیں اس گفتار میں
کس قدر لبریزِ الفت ہے ترا کانٹوں کا ہار
لالہ و گل میں اثر وہ کب ہے جو ہے خار میں
بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں
جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں
دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں
کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں
نعمتیں عالم کی لاکھوں جب میسر ہیں ہمیں
گر نہ تم مل پاؤ تب بھی خوش ہیں اس سرکار میں
کچھ کہیں یا چپ رہیں الجھے ہیں اس گفتار میں
کس قدر لبریزِ الفت ہے ترا کانٹوں کا ہار
لالہ و گل میں اثر وہ کب ہے جو ہے خار میں
بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں
جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں
دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں
کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں
نعمتیں عالم کی لاکھوں جب میسر ہیں ہمیں
گر نہ تم مل پاؤ تب بھی خوش ہیں اس سرکار میں