ہم سنگ رہگزرنہ کسی آسماں کے ہیں

Atif Chauhdary

محفلین
طرحی غزل

ہم سنگ ِ رہگزر نہ کسی آستاں کے ہیں
ٹھوکر کوئ بتائے تو آخر کہاں کے ہیں

وہ پھول ہیں جو آنکھ سے اوجھل کہیں کھلے
ہم رنگ نو بہار نہ صحن ِ خزاں کے ہیں

دیوار چنتے رہتے ہیں شام و سحر کوئی
کچھ لوگ جو یہ تیرے مرے درمیاں کے ہیں

ان آندھیوں نے رات کسے در بدر کیا
تنکے یہ رہگزار پہ کس آ شیاں کے ہیں

اک موج ِبے کنار ہمیں لے گئی کہیں
اب کشتیوں کے ہیں نہ کسی بادباں کے ہیں

گمگشتگانِ عشق ہیں مسکن نہ پوچھئے
ہم لوگ اس زمیں کے نہ اب آسماں کے ہیں

مانے گا کون دوستو کردار ھم بھی تھے
چرچے تمام شہر میں جس داستاں کے ہیں

آئے گی ہم کو دیکھ کے گزرے ہوؤں کی یاد
ہم نقش پا ہیں اور کسی کارواں کے ہیں

عاطف کہاں رکیں گے ہمیں کچھ خبر نہیں
ذرے ہوا کے دوش پہ ریگ ِ رواں کے ہیں

عاطف چوھدری
 
Top