ذوق ہم سے ظاہر و پنہاں جو اُس غارت گر کے جھگڑے ہیں - ذوق

کاشفی

محفلین
غزل
(ذوق)

ہم سے ظاہر و پنہاں جو اُس غارت گر کے جھگڑے ہیں
دل سے دل کے جھگڑے ہیں نظروں سے نظر کے جھگڑے ہیں

جیتے ہی جی کیا ملک فنا میں ساتھ بشر کے جھگڑے ہیں
مر کے ادھر سے جبکہ چھٹے تو جا کے اُدھر کے جھگڑے ہیں

کیسا مومن، کیسا کافر کون ہے صوفی کیسا رند
سارے بشر ہیں بندے حق کے سارے شر کے جھگڑے ہیں

ایک ایک جوروستم پر اُس کے سو سو داغِ دل ہے گواہ
ہم جو اُس سے جھگڑے ہیں حق ثابت کر کے جھگڑے ہیں

غم کہتا ہے دل میں رہوں میں جلوہء جاناں کہتا ہے میں
کس کو نکالوں کس کو رکھوں یہ تو گھر کے جھگڑے ہیں

بحر میں موتی پانی پانی لعل کا دل خوں پتھر میں
دیکھو لب و دندان سے تمہارے لعل و گہر کے جھگڑے ہیں

دوست کے گھر میں دشمن ہو جب سنگ ہمارے سینہ پر
دل کا ذکر رہا کیا باقی پھر تو سر کے جھگڑے ہیں

حضرت دل کا دیکھنا عالم ہاتھ اُٹھائے دنیا سے
پاؤں پسارے بیٹھے ہیں اور سر پہ سفر کے جھگڑے ہیں

ذوق مرتب کیونکہ ہو دیوان شکوہء فرصت کس سے کریں ہم
باندھے گلے میں ہم نے اپنے آپ ظفر کے جھگڑے ہیں
 
Top