فاتح
لائبریرین
ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا
تجھ سے پر ساقیِ کم ظرف! سبو ٹوٹ گیا
شیخ صاحب کی نمازِ سحَری کو ہے سلام
حسنِ نیت سے مصلّے پہ وضو ٹوٹ گیا
پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی
دستِ شانہ سے تری زلف کا مُو ٹوٹ گیا
دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں
پیرہن کا مرے ہر تارِ رفو ٹوٹ گیا
شمع و پروانہ میں تھا رشتۂ الفت جو بہم
سو وہ اے صبح! ترا دیکھ کے رُو ٹوٹ گیا
کشورِ مصر میں قفلِ درِ چشمِ یعقوب
آئی پیراہنِ یوسف کی جو بُو ٹوٹ گیا
دست کاری تری معلوم ہوئی اے فصّاد
نیشتر رگ میں تو لیتے ہیں لہو ٹوٹ گیا
وائے اے شیشۂ دل! سینے میں مانندِ حباب
ٹھیس سے اس نفَسِ سرد کی تُو ٹوٹ گیا
قلزمِ عشق میں ہیہات لگاتے ہی ہاتھ
صاف اپنا تو دم اے آئنہ رُو! ٹوٹ گیا
کاخِ دنیا جو ہے بازیچۂ طفلاں ہے نصیرؔ*
کہ کبھو گھر یہ بنا اور کبھو ٹوٹ گیا
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی
* غالبؔ کا مصرع "بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے" شاہ نصیر کے اس مصرع سے ماخوذ لگتا ہے۔