ہم لے کے آ رہے ہیں وہ شاہکار دوستو

ہم لے کے آ رہے ہیں وہ شاہکار دوستو
جس کا تھا آپ سب کو انتظار دوستو

اقرار کر رہے ہیں نہ انکار دوستو
وہ کر رہے ہیں ظلم لگاتار دوستو

چرچے ہیں کل جہان میں ان کے جمال کے
اک ہم ہی نہیں ان کے پرستار دوستو

کچھ بات ہے جو لگ گئے تالے زبان پر
ہم بھی کبھی تھے ماہرِ گُفتار دوستو

محفل میں سب کے سامنے سن کر وفا کا ذکر
اک شخص ہو رہا ہے شرمسار دوستو

جس کا تھا انتظار ہمیں چار برَس قبل
ہے آج بھی اسی کا انتظار دوستو

اس نفرتوں کے حبس زدہ معاشرے میں آج
ہے کون محبت کا طرف دار دوستو

نفرت کا نام تک نہ رہے گا جہان میں
ہوگا کبھی تو یہ بھی چمتکار دوستو

تو کیا ہوا واہ وائ اگر مل نہیں رہی
ہم شعر کہہ رہے ہیں دھواں دار دوستو

نفرت بھری ہوئ ہے ہمارے دماغ میں
اور دل ہے محبت کا طلب گار دوستو

محمد آصف میؤ​
 
تو کیا ہوا واہ وائ اگر مل نہیں رہی
ہم شعر کہہ رہے ہیں دھواں دار دوستو
کوشش اچھی ہے۔زبان اور بحر کی کچھ غلطیاں ہیں -اساتذہ کو ٹیگ کریں تو وہ اصلاح کردیں گے۔ جیسے یہ شعر ایسے کہا جا سکتا ہے۔
پھر کیا ہوا جو داد نہیں مل رہی ہمیں
ہم شعر کہہ رہے ہیں دھواں دار دوستو​
 

یاسر شاہ

محفلین
ہم لے کے آ رہے ہیں وہ شاہکار دوستو
جس کا تھا آپ سب کو انتظار دوستو
شعر بے وزن ہے ۔شاہکارکو شہکار کر بھی دیں توانتظار قافیہ یہاں فٹ نہ ہوگا۔
اقرار کر رہے ہیں نہ انکار دوستو
وہ کر رہے ہیں ظلم لگاتار دوستو
یہ شعر باوزن ہے۔زبان کا چٹخارہ ڈال دیں۔دوسرے مصرع کو یوں کہہ کر:
کرتے ہیں ظلم وہ بھی لگاتار دوستو
چرچے ہیں کل جہان میں ان کے جمال کے
اک ہم ہی نہیں ان کے پرستار دوستو
دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو وزن ٹھیک ہو جائے گا :
ہم ہی نہیں اک ان کے پرستار دوستو
کچھ بات ہے جو لگ گئے تالے زبان پر
ہم بھی کبھی تھے ماہرِ گُفتار دوستو
:کچھ بات ہے: نہیں کہتے : کوئی بات ہے: بہتر ہوتا ہے لیکن موزوں صورت یہ ہوگی پہلے مصرع کی:
کچھ تو ہوا جو لگ گئے تالے زبان پر

باقی ٹھیک ہے بلکہ اچھا ہے۔
محفل میں سب کے سامنے سن کر وفا کا ذکر
اک شخص ہو رہا ہے شرمسار دوستو

جس کا تھا انتظار ہمیں چار برَس قبل
ہے آج بھی اسی کا انتظار دوستو
دونوں قافیے اس بحر کے لیے موزوں نہیں ۔
اس نفرتوں کے حبس زدہ معاشرے میں آج
ہے کون محبت کا طرف دار دوستو
شعر وزن میں نہیں اور پہلے مصرع میں الفاظ کی بھرتی زیادہ ہے۔
نفرت کا نام تک نہ رہے گا جہان میں
ہوگا کبھی تو یہ بھی چمتکار دوستو
واہ۔بس پہلے مصرع کو یوں کہیں
نفرت کا نام تک نہ رہے کل جہان میں
(یا اس جہان میں )

تو کیا ہوا واہ وائ اگر مل نہیں رہی
ہم شعر کہہ رہے ہیں دھواں دار دوستو
پھر کیا ہوا جو داد نہیں مل رہی ہمیں
ہم شعر کہہ رہے ہیں دھواں دار دوستو
اچھی تجویز ہے بھائی خورشید کی ۔رکھ لیں۔
نفرت بھری ہوئ ہے ہمارے دماغ میں
اور دل ہے محبت کا طلب گار دوستو
دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو وزن ٹھیک ہو جائے گا۔
اور دل محبتوں کا طلبگار دوستو

تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیش کریں۔
 
ہم لے کے آ رہے ہیں وہ شاہکار دوستو
جس کا تھا آپ سب کو انتظار دوستو
آپ کی اصلاح طلب کاوش کے پہلے شعرمیں گرج چمک کی سی کیفیت ہے۔باقی اشعار موسلادھار بارش کی طرح ہیں،وہ بارش جس کے تیور سیلابی ہیں۔غزل اِس تندی و تیزی کی متحمل کہاں اور کسے اُردُو غزل میں ایسی گھن گرج کا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
در اصل دو بحور کا خلط ملط کر دیا گیا ہے اس غزل میں
ویسے میں یہ محنت نہیں کرتا کہ بے وزن شاعری کو وزن میں لا کر اصلاح کروں، ایک آدھ شعر ضرور نمونتاً درست کر دیتا ہوں
 
Top