محمد شکیل خورشید
محفلین
پل تری یاد کے بہانے کے
ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے
توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن
ضبط کے، صبر کے ، زمانے کے
اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں
بھید سارے جو تھے چھپانے کے
کیسے اس کے بغیر کہہ ڈالوں
تھے جو قصے اسے سنانے کے
زندگی اب نہ مجھ کو بھائیں ذرا
تیرے انداز دل لبھانے کے
ہم نے سینچے ہیں پھول جیسے شکیل
زخم وہ غم کے تازیانے کے
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے
توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن
ضبط کے، صبر کے ، زمانے کے
اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں
بھید سارے جو تھے چھپانے کے
کیسے اس کے بغیر کہہ ڈالوں
تھے جو قصے اسے سنانے کے
زندگی اب نہ مجھ کو بھائیں ذرا
تیرے انداز دل لبھانے کے
ہم نے سینچے ہیں پھول جیسے شکیل
زخم وہ غم کے تازیانے کے
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر