الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-------------
ہم نے الفت کے تقاضوں کو نبھایا ہر دم
دل میں تیری ہی محبّت کو بسایا ہر دم
---------
ہم نے دنیا کی نگاہوں میں نگاہیں ڈالیں
آیئنہ ہم نے زمانے کو دکھایا ہر دم
-------------
ہم نے لوگوں کے خیالوں سے نکالی نفرت
راستہ ان کو محبّت کا دکھایا ہر دم
---------
غم کو سہنے کی یہ عادت ہے پرانی اپنی
اس کو دنیا کی نگاہوں سے چھپایا ہر دم
----------------
ہم نے چاہا تھا کہ دنیا کو بنائیں اپنا
اجنبی بن کے زمانے نے دکھایا ہر دم
-----------
ہیں حسیں اور بھی دنیا میں تمہارے جیسے
دل میں صورت کو تمہاری ہی بسایا ہر دم
---------
دن کٹھن ہم پہ جو گزرے ہیں بتائیں کیسے
کس طرح یاد نے تیری ہے رلایا ہر دم
--------------
در پہ غیروں کے نہیں آج بھی جھکتا ارشد
علم اس نے ہے بغاوت کا اٹھایا ہر دم
-------------
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب! اچھی غزل ہے ۔ ارشد بھائی آپ کے کلام میں بہتری آتی جارہی ہے ۔
یہ غزل اچھی ہے ۔ بہت کم جگہوں پر اصلاح کی گنجائش ہے ۔ استادِ محترم تفصیلاً لکھ دیں گے ۔

علم اس نے ہے بغاوت کا اٹھایا ہر دم
عَلَمْ کو عِلْم کے وزن پر باندھا گیا اسے بھی دیکھ لیں
محمد عبدالرؤوف ، یہ مصرع درست ہے ۔ اس میں عَلَم ہی باندھا ہے چوہدری صاحب نے ۔ اس کو عَلَمسُ پڑھیں گے یعنی یہاں میم کے ساتھ وصالِ الف ہوگا۔ عَلَم اور اُس کو ملادیا جائے گا ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان سے تو مکمل درست ہے غزل، بس یہ اشعار دیکھ لیں
غم کو سہنے کی یہ عادت ہے پرانی اپنی
اس کو دنیا کی نگاہوں سے چھپایا ہر دم
---------------- غم کو سہنا یا غم سہنا؟ 'کو' کی ضرورت نہیں ، اسے 'درد' سے بدل دو

ہیں حسیں اور بھی دنیا میں تمہارے جیسے
دل میں صورت کو تمہاری ہی بسایا ہر دم
--------- اس میں بھی دوسرے مصرعے میں 'مگر' یا 'بس' کی کمی لگ رہی ہے
دل میں بس تیری ہی صورت....

دن کٹھن ہم پہ جو گزرے ہیں بتائیں کیسے
کس طرح یاد نے تیری ہے رلایا ہر دم
--------------
در پہ غیروں کے نہیں آج بھی جھکتا ارشد
علم اس نے ہے بغاوت کا اٹھایا ہر دم
-------------
ان دونوں اشعار میں دو لختی محسوس ہوتی یے
 
آخری تدوین:
الف عین
(اصلاح )
---------
درد سہنے کی یہ عادت ہے پرانی اپنی
اس کو دنیا کی نگاہوں سے چھپایا ہر دم
-----------
ہیں حسیں اور بھی دنیا میں تمہارے جیسے
دل میں بس تیری ہی صورت کو بسایا ہر دم
---------
دن جدائی میں تمہاری جو گزارے ہم نے
ان میں یادوں نے تمہاری ہی ستایا ہر دم
------------
ہم نے ارشد سے ہی سیکھی ہے روایت شکنی
-------یا
ہم کو ارشد نے سکھائی ہے روایت شکنی
علم اس نے ہے بغاوت کا اٹھایا ہر دم
-------------
 

الف عین

لائبریرین
درد سہنے کی یہ عادت ہے پرانی اپنی
اس کو دنیا کی نگاہوں سے چھپایا ہر دم
----------- پہلا مصرع بہتر ہو گیا لیکن دوسرے میں 'اس' واضح نہیں جس کا کہنا بھول گیا تھا، اسے 'تم' کر دیں

ہیں حسیں اور بھی دنیا میں تمہارے جیسے
دل میں بس تیری ہی صورت کو بسایا ہر دم
--------- ارشد بھائی معذرت کہ آپ امتحان میں فیل ہو گئے۔ پہلے جب یہ مصرع ذہن میں آیا تھا تو اس کا احساس ہوا تھا کہ شتر گربہ ہو رہا ہے، لیکن پھر بھی پوسٹ کر دیا کہ دیکھیں آپ اس بات کا ذکر کرتے ہیں! یعنی پہلے مصرع میں بھی 'تو' کا صیغہ آنا چاہیے

دن جدائی میں تمہاری جو گزارے ہم نے
ان میں یادوں نے تمہاری ہی ستایا ہر دم
------------ اسے نکال ہی دیں

ہم نے ارشد سے ہی سیکھی ہے روایت شکنی
-------یا
ہم کو ارشد نے سکھائی ہے روایت شکنی
علم اس نے ہے بغاوت کا اٹھایا ہر دم
-------------
دوسرے متبادل کے ساتھ اچھا مقطع ہو گیا
 
Top