جون ایلیا ہم نے اے سرزمینِ خواب و خیال

یاسر شاہ

محفلین
ہم نے اے سرزمینِ خواب و خیال

ہم نے اے سرزمینِ خواب و خیال
تجھ سے رکھا ہے شوق کو پر حال

ہم نے تیری امید گاہوں میں
کی ہے اپنے مثالیوں کی تلاش
دل کے رنگِ خیال بندی کو
تو بھی اک بار دیکھ لے اے کاش

ختنِ جاں! ترے غزالوں کو
ہم نے جانِ غزل بنایا ہے
ہم نے دکھ سہہ کے تیرے لمحوں کو
جاودانِ غزل بنایا ہے

ذکر سے ہم ترے حسینوں کے
شوخ گفتارو خوش کلام ہوئے
تیری گلیوں میں ہو کے ہم بدنام
کتنے شہروں میں نیک نام ہوئے

حسن فردا کے خواب دیکھے ہیں
شوق نے تیری خواب گاہوں میں
ہم نے اپنا سراغ پایا ہے
تیری گلیوں میں تیری راہوں میں

تیری راتیں ہمارے خوابوں سے
اور بھی کچھ سہانیاں ہوں گی
ہم جو باتیں جنوں میں بکتے ہیں
دیکھنا جاودانیاں ہوں گی

ہم ہیں وہ ماجرا طلب جن کی
داستانیں زبانیاں ہوں گی
تیری محفل میں ہم نہیں ہوں گے
پر ہماری کہانیاں ہوں گی

جو تھے دشمن تری امنگوں کے
کب انہیں بے گرفت چھوڑا ہے
ہم نے اپنے درشت لہجے سے
آمروں کا غرور توڑا ہے

ہم تو خاطر میں بھی نہیں لاتے
اہلِ دولت کو شہر یاروں کو
ہم نوا گر ترے عوام کے ہیں
دوست رکھتے ہیں تیرے پیاروں کو

تو ہے کاوش کا جن کی گلدستہ
ان کا نام ان کی نامداری ہو
تیرے شہروں میں اور دیاروں میں
حکم محنت کشوں کا جاری ہو

یہ بڑی سازگار مہلت ہے
یہ زمانہ بہت غنیمت ہے

شوق سے ولولے طلب کر لیں
جو نہ اب تک کیا وہ کر لیں

خوش بدن! پیرہن ہو سرخ ترا
دلبرا! بانکپن ہو سرخ ترا
ہم بھی رنگیں ہوں پر توِ گل سے
جوشِ گل سے چمن ہو سرخ ترا

تیرے صحرا بھی پر بہار رہیں
غنچہ خیز و شگوفہ کار رہیں
دل بہ دل ربطِ جاں رہے تجھ سے
صف بہ صف تیرے جاں نثار رہیں

ہر فسانہ بہم کہا جائے
میں جو بولوں تو ہم کہا جائے



 
آخری تدوین:
Top