ہم نے کہا " چلو تمہیں دُور یہاں سے لے چلیں "
کہتی ہے " ٹھیک ہے مگر " اب اس " مگر " کا کیا کریں
کہتی ہے " ٹھیک ہے مگر " اب اس " مگر " کا کیا کریں
اپنا تو اک چراغ تھا ، جس کو ہوا بجھا گئی
ہم نہیں جانتے انہیں ، شمس و قمر کا کیا کریں
ہم نہیں جانتے انہیں ، شمس و قمر کا کیا کریں
قیس کی بات اور تھی ، اس کا نہ کوئی گھر نہ ٹھور
یہ جو ہمارے ساتھ اک گھر بھی ہے ، گھر کا کیا کریں
یہ جو ہمارے ساتھ اک گھر بھی ہے ، گھر کا کیا کریں
اوروں کے سامنے رہے ہم ، بڑی آن بان سے
اپنی نظر سے گر گئے ، اپنی نظر کا کیا کریں
اپنی نظر سے گر گئے ، اپنی نظر کا کیا کریں
( مصحف اقبال تو صیفی )