ضیاء حیدری
محفلین
ہم پردیسی بابو
ہم پیدائشی مہاجر ہیں، ہر دیس کو اپنا دیس سمجھ کر سینے سے لگا لیتے ہیں پھر بھی پردیسی کہلاتے ہیں، بستی بستی نگر نگر پھرے ہیں خانہ بدوش تو نہیں، پاسپورٹ بدوش کہہ سکتے ہیں،بقول جناب حفیظ جونپوری
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
ہماری مزاح نگاری بھی ہماری عادت کا شاخسانہ ہے، چاپلوس ہم تھے نہیں اسی لئے کسی نے سنجیدہ نہ لیا تو ہم نے بھی سنجیدگی کو خیر باد کہہ دیا، جب سمجھا جاتا ہے کہ ہم سنجیدہ نہیں ہے اس وقت اصل میں ہم رنجیدہ ہوتے ہیں، جن جملوں کو پڑھتے ہوئے آپ ہنس رہے ہوتے ہیں، ان جملوں کو تحریر کرتے ہوئے میں کتنا رویا ہوں اندزہ نہیں کر سکتے ہو،
پاکستان میر پیارا پاکستان، وہاں رہنا کا مزہ ہی کچھ اور ہے، دوستوں کی محفلیں جملہ بازیاں واہ کے ڈونگڑے، بلے بلے خوب گذر رہی تھی کہ جی میں کینیڈا جانے کی سمائی۔ یہاں آکر ایسا لگا جیسے ایک کٹی ہوئی پتنگ ہوں جس کا لوٹنے والا کوئی نہیں۔
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں رکھا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
یہاں سب ڈگریاں بے وقعت ٹہریں، پھر سے خود منوانا جب عمر بھی ڈھل رہی ہو، ایسے میں ہار ماننا واجب تھا، ہم ہار گئے۔۔۔
ایک قلم کا یارانہ چل رہا ہے، یہ بھی دیسی استادوں کا تحفہ ہے جو دل سے لگائے بیٹھے ہیں، ویسے بھی ہم دیسی چیزوں کے شوقین ہیں، دیسی گھی دیسی انڈہ، دیسی مرغی جب مل جائے جتنے کی مل جائے حاصل کرکے رہتے تھے۔
سب کس بل نکل گئے ہیں ، اب باتیں ہی باتیں رہ گئیں ہیں، جسے لوگ ڈینگ سمجھتے ہیں، پہلے زمانے میں جب کوئی فارغ البال ہوتا ، بزرگ مشورہ دیتے ’’بکری پال لو‘‘ لیکن اب زمانہ کتا پالنے کا ہے، جس سے ہمیں رغبت نہیں ہے۔ سوچتا ہوں کہ پھر سے مزاح لکھنا شروع کردوں یاویلاگ بنانے لگوں، ہمیں ایک فن آتا ہے باتیں بنانے کا۔۔۔۔
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
جانتا ہوں پردیسی ہوں میرا اصل وطن کہیں اور ہے وہی جانا ہوگا اور زادِراہ کیا ہے اس غریب الوطن کے پاس، صرف ایک جبینِ نیاز۔۔۔
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے