ہم پنجابیوں کی دو مادری زبانیں ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ

p12_09.jpg
 

اوشو

لائبریرین
بات کو ذرا اس بھی گہرائی میں لے جائیں تو زبان و بیان سے پہلے میرے خیال میں ایک چیز اہمیت رکھتی ہے ۔ وہ ہے زمین کی رزخیزی۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ آب و ہوا اور زمین کا انسانوں کی نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی زرخیز زمین اور خوبصورت آب و ہوا کی وجہ سے پنجاب کے باسی بھی زندہ دل اور زرخیز طبیعت کے مالک ہیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں پنجاب کا ایک بہت نمایاں مقام ہے۔ چاہے وہ سیاست ہو، بیوروکریسی ہو، تجارت ہو یا علم و ادب کا میدان۔ دوسری بات یہ کہ پنجاب ایک ایسی تہذیب اور ثقافت رکھتا ہے جسے کئی صدیوں تک سینچا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ خطہ بہت جاذب ہے۔ بہت سی تہذیبیں اس میں آ کر سمو گئیں۔ اور پنجاب کو نکھارتی چلی گئیں۔ ازمنہ قدیم سے بہت سی اقوام کا مرکز نگاہ یہ خطہ ہونے کا باعث بھی یہاں کی زرخیزی ہی سمجھتا ہوں۔
اور ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ پنجابی زبان میں اردو کی نسبت اظہار کے لیے میدان بہت وسیع ہے۔ اردو کا وسیع مطالعہ رکھنے کے باوجود کئی بار مجھے پنجابی کا کوئی لفظ یا شعر اردو میں کسی کو سمجھانا پڑ جائے تو مشکل میں پڑ جاتا ہوں کچھ ایسا ترجمہ نہیں بن پاتا جو پنجابی میں کہی گئی بات کا حق ادا کر سکے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اردو بھی ہماری زبان اور پہچان ہے۔ لیکن ہم پنجابی سے سوتیلوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ بچوں کو منہ بگاڑ بگاڑ کر غلط ملط اردو اور انگریزی بولنا تو سکھا دیتے ہیں۔ لیکن پنجابی سے ان کا رشتہ کمزور کرتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے پنجاب والے اپنے کلچر اور زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ان میں تخلیقیت کم ہوتی جا رہی ہے خاص کر ادب کے شعبہ میں۔ اب ہمیں ڈھونڈنے سے بھی ایسی شاعری اور نثر نہیں ملتی جو ہماری پہچان ہے۔ پنجابی کے گلشن میں شاہ حسین رح سے لے کر وارث شاہ رح، بابا بلھے شاہ رح، بابا فرید رح، خواجہ غلام فرید رح، سلطان باہو رح سے لے کر استاد دامن، جوگی جہلمی تک بے شمار ایسے پھول کھلے ملتے ہیں جو اپنی مہک سے آج تک پنجابی زبان کو مہکائے ہوئے ہیں۔ روحانیت، حقیقت ، محبت کے ایسے ایسے استعارے ملتے ہیں کہ روح تک روشن ہوجاتی ہے۔
باقی مستنصر حسین تارڑ جو میرے بچپن کے ٹی وی والے چاچا جی بھی ہیں :) کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کسی زبان کی دوسری زبان سے کوئی رقابت نہیں ہے۔ بلکہ جیسے اردو مختلف زبانوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ایسے ہی اردو اور پنجابی زبان کی ترویج بھی ایک دونوں زبانوں کو توانا کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
استاد دامن، جوگی جہلمی تک بے شمار ایسے پھول کھلے ملتے ہیں جو اپنی مہک سے آج تک پنجابی زبان کو مہکائے ہوئے ہیں۔
حقیقت پر مبنی بہت اعلی تآثرات کا اظہار کیا ہےآپ نے ، ملک صاحب۔ میں ان سے کلی طور پر متفق ہوتے ہوئے پنجابی عصری شاعری کے مشاہیر میں دو ناموں، پیر فضل گجراتی اور ڈاکٹر فقیر کا اضافہ کرنا چاہتاہوں، جن کا اپنا ایک الگ انداز تھا۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بلاشبہ! اردو ادب میں پنجاب کے شعراء و ادبا کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ زبان اُسی کی ہو جاتی ہے جو اُس کی خدمت کرے۔ سو جسے اپنی زبان سے محبت ہے وہ اس زبان کی خدمت کرکے اُس محبت کا اظہار کر سکتا ہے۔

زبان کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی روایت اچھی نہیں ہے۔
 
Top