آصف شفیع
محفلین
ثمینہ راجہ کی ایک غزل:
ہم کسی چشمِ فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں، خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب انجامِ محبت کی بھلا کیا لاتے
ناتواں دل وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمنِ ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاوں کے علاوہ کیا ہے
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں
اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
ہم تو ہیں آبِ زرِ عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں، بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں