کاشفی

محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)
ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں

یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ، میری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے ، لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں، کوئی نقشِ قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم، روزگار میں! !
تیرا کرم بھی خود جو شریک ِ سفر نہیں

زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں

مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
 

کاشفی

محفلین
درست شعر اس طرح ہے۔۔
مرگِ جگر پر کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟ اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں

درست شعر اس طرح ہے۔۔
مرگِ جگر پر کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں

پہلے مصرع میں ’’پر‘‘ کی جگہ ’’پہ‘‘ کر لیجئے ۔

میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
درست یوں ہے:
میری زباں پہ شکوہء اہلِ ستم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم، روزگار میں! !

درست یوں ہے:
ملتا ہے کیوں مزہ ستمِ روزگار میں

:):):)
 
Top