آصف شفیع
محفلین
ایک غزل احباب کی خدمت میں:
نکل آئے ہو تم شریر سے کیا؟
بحث کرتے ہو پھر ضمیر سے کیا؟
ناقدان سخن خفا کیوں ہیں؟
ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟
سانپ نفرت کا ڈس چکا سب کو
لگے بیٹھے ہو اب لکیر سے کیا؟
جو بھی دینا ہے، دان کر ڈالو
پوچھتے ہو بھلا فقیر سے کیا؟
اپنا ترکش ہٹا کے کہتے ہیں
جان جاتی ہے ایک تیر سے کیا؟
ہاں، میاں جاؤ، راہ لو اپنی
تم کو لینا ہے اس حقیر سے کیا؟
ہم تو اپنے جنوں ہی میں گم ہیں
ہم کو رانجھا سے کیا ہے؟ ھیر سے کیا؟
بہتے رہتے ہیں رات دن آصف
تیری آنکھوں سے سرخ نیر سے کیا
نکل آئے ہو تم شریر سے کیا؟
بحث کرتے ہو پھر ضمیر سے کیا؟
ناقدان سخن خفا کیوں ہیں؟
ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟
سانپ نفرت کا ڈس چکا سب کو
لگے بیٹھے ہو اب لکیر سے کیا؟
جو بھی دینا ہے، دان کر ڈالو
پوچھتے ہو بھلا فقیر سے کیا؟
اپنا ترکش ہٹا کے کہتے ہیں
جان جاتی ہے ایک تیر سے کیا؟
ہاں، میاں جاؤ، راہ لو اپنی
تم کو لینا ہے اس حقیر سے کیا؟
ہم تو اپنے جنوں ہی میں گم ہیں
ہم کو رانجھا سے کیا ہے؟ ھیر سے کیا؟
بہتے رہتے ہیں رات دن آصف
تیری آنکھوں سے سرخ نیر سے کیا