ن م راشد ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔ از ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی
محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف
کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی
اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!
یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن
کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے
خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!
خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے
جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں
سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق
جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا
جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!
پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم
خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور
صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق
ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!
اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں
آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔۔۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں
حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم
رقص و رفتار میں ہم
نغمہ و صورت و اشعار میں ہم
کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!
عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم
دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں
اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں
تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں
کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

۔۔۔۔ 'آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی'
آپ ۔۔۔۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ
آپ ۔۔۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ
آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی
جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں
آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟
اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے
ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب
مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی
اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں
کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!
۔۔۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں
کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!
آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم
جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ
آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم
کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!
آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں
اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں
کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں
کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں
کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟
دہل و تار کہاں سے لائیں؟
چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟
جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے
ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں
نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس
اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!
لوگ حیرت سے پکار اٹھے: "یہ کیا لائے تم؟"
"وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟"
ہم ہنسے، ہم نے کہا: "دیوانو!
زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی
کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟"
لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:
"ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی
یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،
یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!"

۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم
محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!
درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں
اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!
ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں
رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح
ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے
روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے
اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں
اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے
دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟
ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!
اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟
اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے
جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،
اور سہی، اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا
شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد
(اپنی ہر"سعی" کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)
اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!
اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!
ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں
ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب
لیتنی کنت تُراب!
کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں
اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!

(ن م راشد)
 

خواجہ طلحہ

محفلین
آپ کچھ پوچھنا چاہ رہے ہیں یا بتلانا چاہ رہے ہیں؟ جو کہنا ہے کھل کر کہیے۔
مطلب یہ آزاد ہے ناں؟ جسکو جس مرضی طرف بہا دو۔:idontknow2:
اصل میں آزاد میں چھوٹے چھوٹے جملے میرا مطلب ہے مصرعے بھلے لگتے ہیں ورنہ ایک مضمون سا لگنے لگتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مطلب یہ آزاد ہے ناں؟ جسکو جس مرضی طرف بہا دو۔:idontknow2:
اصل میں آزاد میں چھوٹے چھوٹے جملے میرا مطلب ہے مصرعے بھلے لگتے ہیں ورنہ ایک مضمون سا لگنے لگتا ہے۔

جی یہ آزاد نظم ہے۔ لیکن نثری نظم نہیں۔ آزاد نظم بھی وزن میں ہوتی ہے۔ نثری نظم تو میرے لئے پڑھنا بھی ناممکن ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ!
واہ واہ واہ۔۔۔ لطف آ گیا قبلہ۔ اس قدر خوبصورت نظم ہے کہ ایک ہی نشست میں کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں مگر پھر سے پڑھنے کو جی چاہ رہا ہے۔
بے حد شکریہ قبلہ۔
 

جیا راؤ

محفلین
ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے


بہت ہی خوبصورت انتخاب!
شکریہ۔۔۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح صاحب، جیا راؤ صاحبہ اور مجاز صاحب!

فاتح صاحب آپ نے ٹائپنگ اغلاط کی طرف توجہ نہیں دلائی۔ اب میں نے دوبارہ دیکھا تو کچھ اغلاط نظر آئیں ہیں۔ انہیں درست کر دیا ہے اس لئے آپ کو یہ نظم از سرِ نو پڑھنا پڑے گی۔ :)
 
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!
واھ واھ واھ
 
۔۔۔ ۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔ ۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!
کیا کہنے ن م راشد صاحب کے
 
Top