ہم کہ منتظر ٹہرے- درخواست برائے اصلاح

منتظِر

محفلین
درد کی یوں دوا ہوگئی

مرض تھا شفا ہو گئی

ہم بھی ہو آئے وہاں

یعنی رسم اک ادا ہو گئی

ہم رکابِ اجَل ہو گئے

زندگی تھی، خفا ہو گئی

میری مجھ سے ٹھن گئی

میں ہا رگیا تو فتح ہو گئی

ہم کہ منتظر ٹہرے

اور وہ نارسا ہوگئی
 

منذر رضا

محفلین
منتظِر صاحب۔۔۔۔محفل میں خوش آمدید۔۔
پہلے تو میں اساتذہ کو ٹیگ کر دیتا ہوں
الف عین
یاسر شاہ
عظیم
فلسفی

بعد ازاں کچھ میری گزارشات بھی ہیں۔۔۔۔۔
پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ خارج از بحر ہے، مرض بروزنِ فَعَل ہوتا ہے۔۔۔۔۔

دوسرا شعر کچھ تشنہ لگا۔۔۔۔۔۔کہاں ہو آئے؟
تیسرے شعر میں بھی تشنگی ہے، مصرعین میں ربط کا فقدان ہے۔
چوتھا شعر پھر خارج از وزن۔دوسرے مصرعے میں فتح فَعَل کے وزن پر باندھا جبکہ فتح فعل کے وزن پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچویں شعر میں نارسا کے بجائے کوئی اور لفظ لے آئیں تو بہتری ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔

کچھ متبادل میں تجویز کیے دیتا ہوں:

میرے غم کی دوا ہو گئی
دردِ دل سے شفا ہو گئی
آ گیا میں بھی مقتل سے دیکھ
یعنی رسم اک ادا ہو گئی
میں چلا موت کے پاس اب
زیست مجھ سے خفا ہو گئی

آپ کی طبیعت موزوں اور خیالات اچھے ہیں، ذرا سی مشق سے آپ فلکِ سخن پر ماہتاب بن کے چمکیں گے۔ انشا اللہ!
 

الف عین

لائبریرین
ہم رکابِ اجَل ہو گئے
زندگی تھی، خفا ہو گئی
مکمل درست ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اسی سے بحر متعین ہوتی ہے کہ فاعلن فاعلن فاعلن
افاعیل ہیں۔
جب کہ مطلع میں
مرض تھا دوا ہو گئی
فعولن فعولن فعو( ل)
ہو گئی ہے یہاں 'اک مرض' یا 'کچھ مرض' کیا جا سکتا ہے باقی اشعار ( سوائے ایک مصرع کے، یعنی رسم اک ادا... ) کسی بحر میں نہیں
 

منتظِر

محفلین
منتظِر صاحب۔۔۔۔محفل میں خوش آمدید۔۔
پہلے تو میں اساتذہ کو ٹیگ کر دیتا ہوں
الف عین
یاسر شاہ
عظیم
فلسفی

بعد ازاں کچھ میری گزارشات بھی ہیں۔۔۔۔۔
پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ خارج از بحر ہے، مرض بروزنِ فَعَل ہوتا ہے۔۔۔۔۔

دوسرا شعر کچھ تشنہ لگا۔۔۔۔۔۔کہاں ہو آئے؟
تیسرے شعر میں بھی تشنگی ہے، مصرعین میں ربط کا فقدان ہے۔
چوتھا شعر پھر خارج از وزن۔دوسرے مصرعے میں فتح فَعَل کے وزن پر باندھا جبکہ فتح فعل کے وزن پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچویں شعر میں نارسا کے بجائے کوئی اور لفظ لے آئیں تو بہتری ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔

کچھ متبادل میں تجویز کیے دیتا ہوں:

میرے غم کی دوا ہو گئی
دردِ دل سے شفا ہو گئی
آ گیا میں بھی مقتل سے دیکھ
یعنی رسم اک ادا ہو گئی
میں چلا موت کے پاس اب
زیست مجھ سے خفا ہو گئی

آپ کی طبیعت موزوں اور خیالات اچھے ہیں، ذرا سی مشق سے آپ فلکِ سخن پر ماہتاب بن کے چمکیں گے۔ انشا اللہ!
بہت شکریہ منذر صاحب حوصلہ افزائی و رہنمائی کا معذرت اتنی تاخیر سے جواب دینے کا ۔۔کچھ مصروفیت آڑے رہی ۔۔میں پھر کوشش کرتا ہوں۔ ایک بار پھر شکریہ۔۔
 

منتظِر

محفلین
ہم رکابِ اجَل ہو گئے
زندگی تھی، خفا ہو گئی
مکمل درست ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اسی سے بحر متعین ہوتی ہے کہ فاعلن فاعلن فاعلن
افاعیل ہیں۔
جب کہ مطلع میں
مرض تھا دوا ہو گئی
فعولن فعولن فعو( ل)
ہو گئی ہے یہاں 'اک مرض' یا 'کچھ مرض' کیا جا سکتا ہے باقی اشعار ( سوائے ایک مصرع کے، یعنی رسم اک ادا... ) کسی بحر میں نہیں
الف عین صاحب آپ کا بھی شکر گذار ہوں توجہ کا
 

منتظِر

محفلین
ایک بار پھر احباب کو زحمت کچھ ترمیم کے ساتھ دوبارہ کوشش کی ہے ۔۔۔


درد کی یوں دوا ہوگئی

اک مرض تھا شفا ہو گئی

پوچھا ہم نے بھی ان کا مزاج

رسم تیمار داری ادا ہو گئی

ہم رکابِ اجَل ہو گئے

زندگی تھی، خفا ہو گئی

ہو گیا تھا میں اپنے خلاف

مات کھا کر فتح ہو گئی

منتظر رہ گئی جان جاتے جاتے

اور ان کی تو بس اک ادا ہوگئی
 

الف عین

لائبریرین
دو مصرعے مختلف بحر میں ہو گئے ہیں
ایک مصرع بحر سے خارج ہے، اگر واقعی شاعری سیکھنا چاہتے ہیں تو خود ہی تلاش کریں کہ میں کن مصرعوں کی بات کر رہا ہوں
فتح قافیہ نہیں بن سکتا
 
Top