فارسی شاعری ہم ہوئے خاک مگر شوقِ بتاں باقی ہے ۔ کلام: شاہ نیاز بریلوی مع منظوم ترجمہ از عثمان قاضی

فرخ منظور

لائبریرین
رفتم اندر تہِ خاک انسِ بتانم باقیست
عشق جانم بر بود آفتِ جانم باقیست
منظوم ترجمہ:
ہم ہوئے خاک مگر شوقِ بتاں باقی ہے
عشق میں جان گئی، آفتِ جاں باقی ہے

سرو سامان وجودم شرر عشق بسوخت
زیرِ خاکسترِ دل سوزِ نہانم باقیست
منظوم ترجمہ:
آتشِ عشق نے سب خاک کیا اپنا وجود
راکھ کے ڈھیر تلے سوزِ نہاں باقی ہے

کاروانم ہمہ بگزشت زمیدانِ شہود
ہمچو نقشِ کفِ پا نام و نشانم باقیست
منظوم ترجمہ:

کارواں صفحہِ ہستی سے ہوا رخصت پر
مثلِ نقشِ کفِ پا نام و نشاں باقی ہے

ہستیم جملہ خیالست بتمثال سراب
بالیقین من نیم و وہم و گمانم باقیست
منظوم ترجمہ:
اپنی ہستی کی ہے تمثیل سرابِ موہوم
ہے یقیں ہم ہیں عدم، وہم و گماں باقی ہے

طمع فاتحہ از خلق نہ داریم نیاز
عشقِ من در پسِ من فاتحہ خوانم باقیست
منظوم ترجمہ:
حرفِ الفت کی توقع نہیں دنیا سے نیاز
عشق ہی اپنا فقط فاتحہ خواں باقی ہے


کلام: شاہ نیاز بریلوی
منظوم ترجمہ: عثمان قاضی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نقی علی خان خورجوی اپنی خود نوشت عمر رفتہ میں لکھتے ہیں
میرے چھوٹے بھائی شفیع محمد خان سب انسپکٹر ہو چکے تھے۔ ہمشیر کی شادی ہوگئی تھی۔ والد صاحب کا سنہ 1908 میں انتقال ہو چکا تھا۔ تنہائی کی وجہ سے کبھی والدہ صاحبہ میرے پاس آ جاتیں اور جب دل چاہتا خورجہ چلی جاتیں۔ میرے گانے بجانے کا شغل برابر جاری تھا۔
ایک روز مردانہ مکان میں جس میں نشست کا کمرہ سڑک کی جانب تھا ، اپنے شغل میں مصروف تھا۔ بھیرون دت سب انسپکٹر طبلہ اور میں باجا بجا رہا تھا۔ حکیم جی اور مبارک حسین "رفتم اندر تہ خاک ، اُنسِ بتانم باقیست" حضرت نیاز کی غزل قوالی کے طرز میں بڑے مزے میں گا رہا تھا۔ الاپ اور تان موقع موقع سے لے لیتا تھا۔ محمد حسین اور شمس الحق دو سب انسپکٹر اور بھی تھے۔ رات کے دس بجے تھے۔ سڑک سنسان تھی۔ یکایک میرے ہارمونیم پر بہت سے پیسے جن میں کچھ دونی چونی بھی تھیں ، کچھ ریوڑیاں اور پھول بکثرت آن کر گرے۔ گانا بند ہو گیا۔ محمد حسین اور شمس الحق جو دروازے کے قریب ہی بیٹھے تھے دوڑ کر باہر گئے۔ لیکن گلی میں کوئی نظر نہ آیا۔ سب کو اس واقعہ سے حیرت ہوئی۔
اس کے بعد پھر اس قسم کا واقعہ پیش نہ آیا
 
آخری تدوین:
Top